کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 8
امن معاہدوں کے شرکا کو ہلاک بھی کرچکا ہے، تاکہ یہ لوگ اپنی جنگ میں مصروف رہیں اور یہاں قتل وغارت کا بازار گرم رہے جس کا فائدہ ایک طرف افغانستان میں جاری مزاحمت میں کمی کے ذریعے اُٹھایا جائے تو دوسری طرف پاکستانی حکومت کو شدت پسندوں کے خلاف ناکام قرار دے کر عالمی سطحپر ناکام اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی امریکہ افغانستان میں طالبان سے مفاہمت کی پیش کش کرچکا ہے تاکہ وہاں سیاسی عمل دخل بڑھا کر اپنے رہنے کی مدت کو طویل تر کیا جائے۔ لیکن جواباً افغانی طالبان نے جو ۸۰ فیصد افغان علاقے پر حکمران ہیں ، امریکہ سے ہر طرح کی مفاہمت کو اس وقت تک خارج از امکان قرار دیا ہے جب تک امریکی افواج یہاں سے نکل نہیں جاتیں ۔ الغرض پاکستان کو درپیش ان حالات کے پس پردہ تحریک ِطالبان کا وہ رویہ اور رجحان ہے جو خالصتاً ردّ عمل اور انتقامی بنیادوں پر مبنی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی طالبان پر ظلم کیا گیا ہے۔ان پر ظلم کی موجودگی اُن کے لئے قدرے ہمدردی تو پیدا کرسکتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے موقف اورجوابی انتہاپسندی کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کوئی چور اس بنا پر چوری کا پیشہ اختیار کرلے کہ بچپن میں اس کا مال لوٹا گیا تھا، ظاہر ہے کہ یہ ظلم کا جواز نہیں بنتا۔ قرآنِ کریم میں اس کے بارے میں یہ رہنمائی موجود ہے کہ ﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ﴾ ’’اگر تم بدلہ تو اسی قدر ہو جتنا تمہیں تکلیف دی گئی ہے، اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ ظلم وستم کا بدلہ چکانے کے لیے یہ جوابی رویہ بھی ان حالات میں گوارا ہے جب کہ مقابل دشمن متعین فرد موجود ہو، حالانکہ ردّ عمل میں جوابی شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے والے اگر اس بنا پر پاکستان کے پرامن باشندوں یا سیکورٹی فورسز کے ایسے اہل کاروں کے خلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے خود اُن پر ظلم نہیں کیا تو اس کی اسلام میں گنجائش نہیں ۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ طالبان کے اس ردّ عمل کو بھی امریکہ نے ہائی جیک کرلیا ہے اور اس نے ان میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے ان کے اہداف کو نہ صرف مشکوک و