کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 7
میں اسی متاثرہ سرحدی علاقوں میں جاری ظلم وستم اور قتل وغارت کے نتیجے میں طالبان کا اُبھرنا دراصل جوابی ردّ عمل کا اِظہار ہے جو دین کے خلاف نظریاتی یلغار کے نتیجے میں دین اسلام کے نعرے تلے، طالبانیت کے سائے میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ اگر یہ ظلم وستم اسی طرح جاری رہا اورپاکستان کے دیگر خطوں کی طرف خدا نخواستہ بڑھا تو وہاں بھی لوگ مجبوراً طالبانیت کے نعرے میں پناہ ڈھونڈیں گے۔ اس لئے پاکستان کا اصل مسئلہ طالبانیت نہیں بلکہ امریکانائزیشن ہے جس کی اندھی تائید میں اپنی قوم اور نظریہ کو لگاتار ہدف بنایا جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے پاکستانی فوج کے خلاف جارحیت کیوں کر شروع کی؟ اس کا بھی جواب بڑا واضح ہے۔ شروع شروع میں جب امریکہ نے ان کے دینی مراکز پرحملے کئے، اور عوام کو ہلاکت وبربادی سے دوچار کیا تو ا س کے نتیجے میں یہ قبائلی لوگ امریکہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔امریکہ نے اپنے اتحادی ملک پاکستان سے انہیں دبانے کے لئے نہ صرف مدد طلب کی بلکہ یہاں موجود اپنے مطلوب افراد کو پکڑنے کے لئے بھی مشرف حکومت کو ڈالروں کا لالچ دیا۔ یوں پاکستانی حکومت نے نادانی میں امریکہ کی جنگ کو اپنا لیا اور اس میں اپنے عوام کی حفاظت کی بجائے امریکی ظلم میں شریک ہوکر اپنے عوام کے خلاف امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ اس سے یہ لوگ پاکستانی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے بھی خلاف ہوگئے۔ دراصل یہ علاقے ڈھائی ہزار کلو میٹر لمبی پاک افغان سرحد پر ہیں ، اور ایک ہی نسل ہونے کے ناطے یہاں سے امریکہ کے خلاف افغان مزاحمت کو بھرپور مدد ملتی تھی۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنے خلاف مزاحمت کو کمزور کرنے کے لئے ان لوگوں کو اپنی سلامتی کی جنگ میں دھکیل دیا، اور یہ جنگ جو افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانا تھی، اسے پاکستان کے داخلی علاقوں میں بھڑکا دیا۔ اس لئے ہم اس جنگ کو پاکستان کی بجائے امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ، جو پاکستان امریکہ کی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے لڑ رہا ہے اور اس کو اپنے گلے ڈال چکا ہے۔ امریکہ ان علاقوں میں ہمیشہ عوام او رپاک فوج کے مابین مفاہمت کا مخالف رہا ہے اور کئی