کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 67
یقینی ثبوت سامنے آچکے ہیں کہ کوئی بھی ہوش مند شخص اسے تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس کہانی کے بارے میں خود امریکی تحقیق کاروں نے جو سوالات اُٹھائے ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں : 1. سب سے بنیادی سوال تو یہی ہے کہ طیاروں کے ٹکرانے سے ٹوئن ٹاورز چند سیکنڈ میں زمین بوس کیوں ہوگئے اور ان کا فولادی ڈھانچہ بتاشے کی طرح بیٹھتا کیوں چلاگیا۔ امریکی سائنس دانوں کے مطابق کنٹرولڈ ڈیمالیشن کا طریقہ اختیار کیے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا جس کے لیے ان عمارتوں میں ڈائنامیٹ رکھا جانا ضروری تھااور یہ کام امریکی ایجنسیوں کی شرکت کے بغیر ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔ 2. گیارہ ستمبر کو ان عمارتوں سے ایک بلاک آگے WTC7 نامی۴۷ منزلہ عمارت بھی ٹوئن ٹاورز کی تباہی کے سات گھنٹے بعد بالکل اسی طرح محض پانچ چھ سیکنڈ میں زمین بوس ہوگئی جبکہ اس سے کوئی طیارہ نہیں ٹکرایا تھا۔ سرکاری طور پر اس واقعے کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی حتی کہ جولائی ۲۰۰۴ء میں ’نائن الیون کمیشن‘ کی جو نام نہاد تحقیقی رپورٹ آئی، اس میں اس واقعے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ طیاروں کی ٹکر کے بغیر ہی یہ فلک شگاف عمارت کس طرح لمحوں میں زمین بوس ہوگئی اور امریکی حکومت اور مین اسٹریم میڈیا نے اسے چھپانے کی کوشش کیوں کی؟ 3. گیارہ ستمبر سے عین پہلے چھ سات اور آٹھ ستمبر کو ان دونوں امریکی فضائی کمپنیوں کے شیئرز بہت بڑی تعداد میں مارکیٹ میں متعین قیمت پر فروخت کے لیے کیوں پیش کیے گئے جن کے جہاز نائن الیون حملوں میں استعمال ہوئے؟ اس کامطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ یہ امریکا کے طاقتور حلقوں کا بنایا ہوا پیشگی منصوبہ تھا ۔ 4. پنٹاگون کی عمارت سے ۷۵۷ جیسا دیوہیکل جہاز ٹکرایا مگر اس کی عمارت کو ٹوئن ٹاورزکے مقابلے میں برائے نام نقصان پہنچا۔ اگر جہاز ٹکرانے سے ٹوئن ٹاورز زمین بوس ہوسکتے تھے تو پنٹاگون کی عمارت کو اتنا معمولی نقصان کیوں پہنچا؟