کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 65
ہوں ، سعودی عرب کے شاہ سے میری دو گھنٹے بات ہوئی ہے، اُنہوں نے کہا کہ آپ اس میں دیر نہ کریں ، ورنہ آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔ دیگر مسلم حکمرانوں نے بھی اسی قسم کا مشورہ دیا ہے۔ اس موقع پر اکٹر اسرار احمد نے کہا کہ آپ صرف مسلمانوں حکمرانوں کی بات نہ کریں بلکہ اپنے ملک اور دنیا کے دیگر مسلمان عوام کے انداز سے بھی سوچیں جو امریکی چنگل سے نکلنے کے لئے بے چین ہیں ۔ حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ ہم نے مشرف کے سامنے کلمہ حق کہا اور اُسے متنبہ کیا کہ اگر امریکہ کی اس بلیک میلنگ سے اکار نہ کیا تو پھر بار بار بلیک میل ہوتے جاؤ گے۔ مشرف نے ہمیں کہا کہ اگلے سال دیکھنا میری حکمتِ عملی مفید رہے گی لیکن اب حالات واضح ہو چکے ہیں کہ اس وقت ہم نے جو بات کہی تھی، وہ واقعی درست تھی۔ ہم نے دو ٹوک انداز میں اُنہیں امریکہ کی بلیک میلنگ میں آنے سے روکا تھا۔ موجودہ ملکی صورتحال ہمارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے! مولانا مدنی نے کہا کہ روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ موجودہ بد ترین صورت حال ہمارے اپنے کرتوتوں کے نتائج ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ پاکستان سے اسلام کا نام مٹانا چاہتا ہے۔ نفاذِ اسلام کیلئے طریقۂ جدوجہد کیا ہو؟ اس کے جواب میں اُنہوں نے فرمایا کہ مسئلہ خروج ایک نازل مسئلہ ہے۔ اسی سلسلے میں انفرادی طور پر کوئی بھی فتویٰ انتشار و خانہ جنگی کا باعث ہو گا۔ اگر کبھی صورتِ حال ایسی بنی تو اہل علم اکٹھے ہو کر متفقہ فتویٰ دیں ، تب ہی وہ فتویٰ مؤثر ہو گا۔ جب حافظ عبد الرحمٰن مدنی سے پوچھا گیا کہ جن لوگوں نے خروج کر رکھا ہے اور پاکستان آرمی سے لڑ رہے ہیں ، ان کے بارے میں آپ کا کیال خیال ہے؟ تو حافظ صاحب نے اس بات کا بالکل انکار کیا کہ پاکستان میں کسی نے خروج کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آرمی سے کوئی نہیں لڑ رہا بلکہ آرمی اُنہیں کچل رہی ہے اور اپنا دفاع کرنا کوئی خروج نہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ مولانا صوفی محمد کا انداز حکیمانہ نہیں تھا، ان کے انداز سے ہمیں اختلاف ہے۔ ان کا کام تھا کہ قرآن و سنت کی بات کرتے اور کہتے کہ میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کا قائل ہوں ، ملک کے آئین کو بدلنے کی بات کرنے کا کوئی تک نہیں تھا۔ یہ لفظ کہنا کہ جمہوریت کفر ہے یا یہ کہنا کہ ہماری سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ٹھیک نہیں ہے، اس طرح اُنہوں نے جو مسائل چھیڑے، اس وجہ سے وہ صحافیوں اور سیاستدانوں کی حمایت سے بھی محروم ہو گئے۔ دینی جماعتوں کو چاہئے کہ موجودہ حالات میں آئین اور دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ اسلام کی جدوجہد کریں ۔ (شائع شدہ ہفت روزہ ’حدیبیہ‘ کراچی؛ بابت ۱۵/ جون ۲۰۰۹ء، شمارہ ۴)