کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 64
کر اُنہیں کمزور کیا، یہی کام وہ پاکستان میں کرنا چاہتا ہے۔ مزارات کا ایشو بھی اسی لئے اُٹھایا گیا ہے۔ دراصل طالبان تحریک میں بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیاں شامل ہو چکی ہیں اور ان کے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے کام کرائے جا رہے ہیں جیسا کہ یہ خبریں آئیں کہ طالبان مزارات کو توڑ رہے ہیں حالانکہ یہ صرف الزام ہے، اس مقصدکے لئے شر پسند ایجنٹ استعمال کئے گئے ہیں ۔ طالبان کو دوسرے فرقہ کے عقائد پر حملہ آور ہوتے دکھانے کا مقصد ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا ہے، حالانکہ نظامِ عدل ریگولیشن میں مزارات کے تحفظ کی ضمانت موجود ہے جسے تحریکِ نفاذ شریعت نے نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ معاہدے میں یہ بات موجود ہے کہ ’نوادرات کے تحفظ کا قانون ۱۹۷۵ء، یہاں نافذ ہو گا اس قانون میں مزارات اور عبادت گاہوں کا تحفظ بھی موجود ہے۔ اگر مولانا صوفی محمد نے مزارات توڑے ہوتے تو وہ معاہدے کی یہ شق قطعی قبول نہ کرتے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کا طریقۂ واردات یہی ہے کہ وہ پہلے فرقہ واریت پھیلا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا ہے اور پھر جب وہ کمزور ہو جائیں تو اُن پر حملہ کر دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ صوفی محمد صاحب کا مطالبہ بڑا سادہ اور جائز تھا کہ ہمارا نظامِ عدل وہی رکھا جائے جو پہلے سے سوات میں چل رہا تھا، ہم انگریز کا نظام نہیں مانتے۔ لیکن حکومت کی پالیسیوں اور غیر ملکی مداخلت نے سوات کے مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سوات کے جنگجو اور پر امن لوگ سب یہ سمجھتے ہیں کہ ڈالروں کے لئے یہ آپریشن کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کو کہا گیا کہ آپ آپریشن کریں اور زرداری صاحب نے امریکہ میں اسے کیش کرایا۔ اُنہوں نے کہا کہ جہاد کے عالمی اتحاد کے تحت لڑنے والوں کو کچلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان میں مایوسی پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے کن لوگوں کے لئے کام کیا تھا؟ اب ہمارے خلاف یہی یہ سارا کام کیوں ہو رہا ہے۔ یہ انتہا پسندی ایکشن کا رِی ایکشن ہے!! ہم نے مشرف کو امریکہ کی بلیک میلنگ میں آنے سے منع کیا تھا: حدیبیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے ۳۰ کے قریب دینی رہنماؤں کو مشاورت کے لئے بلایا اور اُنہیں بتایا کہ امریکہ نے ہمیں دوستی اور دشمنی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کہا ہے اور درمیان کی کوئی راہ نہیں ۔ آپ بتائیں ، ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ میں الحمد للہ اس مجلس کے ان چند ایک لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے پرویز مشرف کو کہا کہ فوری حمایت کے بجائے ایسی حکمتِ عملی اختیار کریں کہ آپ کو کچھ مہلت مل جائے اور اس دوران آپ اسلامی ممالک سمیت تمام دوست ممالک سے مشاورت کریں اور ایسے حالات بنائیں کہ کوئی متفقہ آواز اُٹھائی جا سکے۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا میں یہ کام کر چکا