کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 61
سرخی بن رہے ہیں اور ہم وطن دیکھ رہے ہیں ۔ 3. ذرا غور کریں ۔دشمن اور دوست کا نقطۂ نظر ایک کیسے ہوگیا۔ جو بات امریکہ کی حکومت کہ رہی ہے۔وہی بات آج پاکستانی حکومت اور فوج کہہ رہی ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ دشمن اور سجن ایک ہی رائے رکھیں ۔ 4. میں ایک ماں ہوں ۔ آپ بھی مائیں ہیں ۔ حکومتیں گھروں کی طرح ہی چلتی ہیں ۔میں سوال کرتی ہوں کہ اگر میرے گھر میں میرے بچوں میں سے کوئی ایک، دو غلط راستے پر چل پڑیں تو کیاوالدین انہیں ذبح کردیتے ہیں ۔ ان پرطیارے اور بم پھینکتے ہیں ۔باقی بچوں کو گھر سے نکال دیتے ہیں ۔ بچوں کو حکمت کے ساتھ سمجھایاجاتاہے طریقے سے راہ راست پر لایاجاتاہے۔ ذبح نہیں کیا جاتا۔ گھروں سے بے گھر نہیں کیاجاتا۔حاکم بھی ایک باپ کی طرح اپنے ملک کو سنبھالتا ہے۔معاہدہ سوات جب ہوا۔پارلیمنٹ نے بھی اس کی منظوری دے دی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ شائد اللہ نے پاکستان پر رحمت کا ارادہ کرلیا ، لیکن اس کے بعد جو ہوا الامان والحفیظ۔ جنگی کارروائی کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ ہم نے مارچ 1971ء میں اپنے مشرقی بازو میں فوجی کارروائی کی۔ اطمینان کااظہارکیاگیا کہ ہم نے ملک کو بچا لیا گیا،لیکن دسمبر 1971ء میں بنگلہ دیش نتیجے کے طور پر سامنے آیا۔ ہم نے لال مسجد پرفوجی کارروائی کی۔ اسی کانتیجہ سوات میں ہمارے سامنے آیا۔ اب اتنی بڑی فوجی کارروائی جس کے ساتھ ۲۵ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں ، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟کسی بڑی Calculationکی ضرورت نہیں ۔ میں سوچتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس المناک صورتحال کا حل یہ ہے کہ حکومت، فوج، پارلیمنٹ، ساری سیاسی جماعتوں ، صوبوں اورعوام کے تعاون سے فوری طور پر دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ سے باہر نکل آئے۔ امریکہ اور نیٹو سے ساری سہولتیں واپس لے لے۔ عوام بھوکے رہ کر بھی حکومت کا ساتھ دیں گے اور لڑیں گے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ لڑائی کی نوبت نہیں آئے گی۔ ایران نے امریکہ کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا۔امریکہ نے اس کا کیابگاڑ لیا؟ حالانکہ وہ ایٹمی طاقت بھی نہیں ۔ حکومت پاکستان یہ فیصلہ کرلے تو مخلص طالبان اور دیگر مسلح گروپ اس کا ساتھ دیں گے۔ سوائے بِکے ہوئے کچھ لوگوں کے جن سے نمٹا جاسکتاہے۔