کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 6
پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو درپیش المیے کے بارے میں یہ سوال خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ کیا یہ لوگ ہمیشہ سے ہی پاکستان کے خلاف قانون شکن رجحانات کے حامل رہے ہیں ، یا ان کی حالیہ شدت پسندی کا کوئی تازہ داعیہ بھی موجود ہے۔لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پاکستانی طالبان ۲۰۰۴ء میں پاک فوج کی جارحیت سے قبل کیوں موجود نہیں تھے؟یہ سب لوگ ہمیشہ سے یہاں کے رہائشی ہیں اور پر امن زندگی بسر کرنے والے تھے، اگر ان میں باہر سے غیرملکی ایجنٹ داخل ہوئے ہیں تو ان کو روکنا حکومت ِوقت اور اس کی ایجنسیوں کا کام ہے، لیکن یہاں کے رہائشی بعض لوگ آج کیوں ریاست کے خلاف اس قدر مشتعل ہوگئے ہیں کہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرپوری قوم کو ہلاکت وبربادی سے دوچار کرنے پر تل گئے ہیں ۔ جب کسی گھرانے کا کوئی فرد بلاو جہ قتل کردیا جائے اور وہ کسی کے ہاتھ پر ا س کا خون بھی تلاش نہ کرپائے، قرائن بھی موجود ہوں کہ یہ کسی وقتی حادثے کی بجائے اس مہم جوئی کے نتیجے میں مارا گیا جو پڑوس میں اسلام کے خلاف ایک سپرقوت ظلم روا رکھے ہوئے ہے، تو آخر کار یہ عوامی غیظ وغضب پھٹ ہی پڑتا ہے۔ ایسے گھرانے اپنے پیاروں کو یاد کرکے انتہا پسندی پر مجبور ہوہی جاتے ہیں ۔ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ غیرمتاثرہ فریق کی طرح بڑا متوازن رویہ اختیار کریں گے، نادانی اور حماقت ہے۔ مقتولین کے ورثا ایک فریق ہیں اور فریق کا ردّ عمل نہ تو متوازن شخص کا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی گواہی قبول ہوتی ہے۔ اس کی سادہ مثال اس آدمی سے سمجھی جاسکتی ہے جو کسی وقت پولیس کے بلاوجہ ظلم کا شکار ہوا ہو، زندگی بھرکے لئے پولیس کے بارے میں اس کا رویہ دیگر لوگوں سے اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر مختلف اور شدید تر ہوگا۔ آج ایسے مظلوم ومتاثرین سے توازن واعتدال کی توقع رکھنا نادانی ہے، اس کو مظلوم ومتاثر فریق سمجھ کر ہمیں اس پر مظالم کی تلافی کرنا ہوگی، وگرنہ ایسے متاثرہ لوگ ہمارے مکار دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل میں بڑی آسانی سے دھوکہ کھا سکتے ہیں ۔ پاکستان میں اسلام کے خلاف امریکہ سرکار کی سرپرستی میں مسلسل ۸ سال سے بڑے زور وشور سے نہ صرف قتل وغارت کی جنگ جاری ہے بلکہ نظریاتی معرکہ بھی گرم ہے۔ ہماری نظر