کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 58
گے۔‘‘ (روزنامہ جنگ: ۱۱/ مئی۲۰۰۹ء) اس پیش کش کے باوجود فوج کا ان کے بیٹے کو شہید کرنا یا اُن کو گرفتار کرنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت اُنہیں امن کے لئے کوششیں کرنے والے کی بجائے طالبان کی طرح ہی متحارب فریق باور کرتی ہے۔ ۵/ جون کو اخبارات میں ان کی گرفتاری اس سیاق میں شائع کی گئی جیسے وہ بھی حکومت کے خلاف جنگ کے ہراول دستہ میں ہوں ، حالانکہ حقائق یہ ہیں کہ صوفی محمد تو کئی روز سے اپنے علاج کے لئے پشاور میں موجود اور ہرفرد کی دسترس میں ہیں ، جبکہ خبررساں ایجنسیاں اُنہیں جنگ میں شریک بتا کر پاکستانی عوام کو مغالطہ دے رہی ہیں ۔ یہ اس پس منظر کی حقیقت ہے جو پاکستان میں موجودہ آپریشن کا سبب باور کرایا جاتا ہے۔ لیکن آخرکار آپریشن کا خاتمہ اور امن وامان کا قیام ہم وطنوں سے مصالحت کی صورت ہی نکلے گا جس کے لئے صوفی محمد جیسے متدین و معتمد شخص کا وجود ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف ملک وملت کو درپیش اس سنگین صورتحال میں مولانا صوفی محمد کو بھی شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے اثرو رسوخ کو اَمن کے لئے استعما ل کرنا چاہئے۔ ہر فرد پر اس کے دائرہ اختیار کی حد تک ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور چونکہ صوفی محمد متحارب طالبان پر اثر ورسوخ رکھتے ہیں ، اس لئے ان سے بڑے راست کردار کی توقع بھی کی جاتی ہے۔ ماضی میں بھی ملک بھر میں نفاذِ شریعت کے نعروں سے قبل تحریک نفاذ شریعت کو سوات میں نظام عدل قائم کرکے اہل وطن کو شریعت کی برکا ت کا عملی مظاہرہ پیش کرنے پر زور دینا چاہئے