کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 57
ملک میں جنگ بازی کا سلسلہ شروع نہ کرپاتی۔ آج تمام سیاستدانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ آپریشن عجلت میں شروع کیا گیا، یہ عجلت امریکی دھمکیوں اور امریکی دورے کی تھی، جس کے بعد صدر ذی وقار کا ۲۱ دنوں پر محیط دورہ دنیا بھر سے اپنے اس حق خدمت کی وصولی کے لئے تھا جو وہ امریکہ بہادر کی تائید میں اپنے ہی ملک میں اس کی تلقین پر عمل درآمد کی صورت انجام دے رہے تھے۔ اہل پاکستان بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے صدرِ محترم دباؤ کا سامنا نہیں کرپاتے، وہ تمام کام بھی کرتے ہیں اور آخر کار دباؤ پڑنے پر یو ٹرن بھی لیتے ہیں ۔ لانگ مارچ اس کی تازہ مثال ہے، چیف جسٹس کی بحالی صدر پر شدید ترین دباؤ کا نتیجہ ہے جس نے حکومت کے کئی ماہ پر محیط موقف کو اُلٹا کر رکھ دیا، اسی طرح مسلح آپریشن ’راہ ِحق‘ بھی عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے جس نے قومی اُمنگوں اور ملی مفاد کو دھندلا کردیا۔ آج تمام خواہشات غیروں کی پوری ہورہی ہیں اور پاکستانی قوم آپس میں برسرپیکار ہے، پاکستانی سرزمین پاکستان کے اپنے ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے گولہ بارود سے ادھیڑی جارہی ہے اور ایک اور لال مسجد کا سانحہ جنم لے رہا ہے! جہاں تک صوفی محمد کا تعلق ہے تو امن قائم کرنے کی ا س پیش کش پر وہ آج تک قائم ہیں جیسا کہ اپنے تازہ بیان میں بھی اُنہوں نے کہا: ’’اب بھی نظام عدل معاہدے کے مطابق نافذکیا جائے تو امن کی ذمہ داری لیں گے! ’’مولانا صوفی محمد نے کہا ہے کہ نفاذِ شریعت اور حکومتی رٹ کی بحالی کے علاوہ ہمارے کوئی اور عزائم نہیں ، حکومت نے دو مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ گزشتہ روز ایک تحریری بیان میں صوفی محمد نے کہا کہ اگر مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل معاہدے کو نفاذ کیا جائے تو حکومت کی رٹ بحال کرنے اور امن عامہ کے قیام کی ذمہ داری تحریک ِنفاذ شریعت پر ہو گی۔ فوج اور پولیس عوام کے محافظین اور نظامِ عدل کی مخالفت کرنے والے باغی ہوں گے اور ان کے لئے واجب القتل کا اعلان کیا جائے گا مگر حکومت ہی نہیں چاہتی اور ہمارے خلاف میڈیا وار شروع کر دی۔ تحریک نفاذِ شریعت کے ترجمان امیر عزت خان(۱) نے کہا کہ ہم اب بھی معاہدے پر قائم ہیں ۔ حکومت آپریشن بند کر دے اور عملی طور پر شریعت نافذ کرے تو امن کی ذمہ داری ہماری ہو گی اور اگر حکومت امن قائم کرے تو ہم پانچ سال تک شریعت کا مطالبہ نہیں کریں