کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 56
اہم واقعہ رونما ہوگیاکہ26 اپریل کو لوئر دیر اور 28 اپریل کو بونیر میں فوجی آپریشن کرنے کے سوا حکومت کو اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ ظاہر ہے کہ ایسا اقدام کسی داخلی ضرورت کی بجائے محض خارجی مصلحت کی بنا پر کیا گیا۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ فیصلہ کن موڑ دیر اور بونیر میں طالبان کی جارحانہ پیش قدمی تھی جس کی وجہ سے حکومت کو یہ یوٹرن لینا پڑا لیکن حقائق سے اس کی تائید نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ بات اس وقت تک ہر ایک کے سامنے آچکی ہے کہ طالبان کے نام سے متعدد عناصر ان علاقوں میں سرگرم عمل ہیں ، جن میں ظلم کے خلاف ردعمل کرنے والے مجاہدین ، علاقے میں شدید مسائل کا شکار ہو کر اٹھ کھڑا ہونے والا طبقہ ، بھارتی و امریکی ایجنٹ اور عام قانون شکن و جرائم پیشہ عناصر وغیرہ شامل ہیں ۔یاد رہے کہ بونیر پر حملہ کرنے والوں نے سب سے پہلے وہاں کے امرا کے محلات کو قبضے میں لیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاشرے کے ظلم سے تنگ آئے ہوئے لوگ تھے ۔ صوفی محمد نے معاہدہ امن پر دستخط ہونے کے بعد اپنے زیر اثر طالبان کو اس جارحیت سے منع کیا اور اس کے نتیجے میں 24 اپریل کو طالبان کے انخلا کو بھی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا لیکن دو روز کے اندر اندر کلی نتائج حاصل کر لینا صوفی محمد کے بس میں نہیں تھا ۔ یہ بہت ہی اچھا موقع تھا کہ حکومت صوفی محمد سے کیا گیا معاہدہ خلوص دل سے پورا کر کے انہیں کم از کم اس سے نصف مہلت تو ضرور دیتی جتنی مہلت حکومت نے دو ماہ کے دوران صدارتی دستخط اور دار القضا کے قیام کے لیے حاصل کی تھی اور اس عرصے میں جہاں صوفی محمد کے کردار کا تعین ہو جاتا ، وہاں طالبان کے نام پر غیر ملکی ایجنٹ اور قانون شکن عناصر کی نشاندہی بھی ہو جاتی اور اہل پاکستان طالبان کی حقیقت کو اچھی طرح پہچان لیتے کہ آیا یہ دین پسند لوگ ہیں ، معاہدہ کے پابند کرنے والے ہیں ؟ یا طالبان کے روپ میں امریکی ایجنڈے پر کاربند غیر ملکی دہشت گرد ہیں ۔ صوفی محمد نے غیردانش مندانہ بیان بازی کے ذریعے اگر پہلے ہی اپنی ساکھ متاثر نہ کرلی ہوتی یا میڈیا حکومت کی عہد شکنی کے اس اہم نکتہ کو اُجاگر کرتا اور تحریک ِطالبان اور تحریک شریعت میں فرق عوام کے سامنے واضح ہوتا تو حکومت کبھی اس قدر عجلت میں امریکہ نوازی اور