کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 55
’’ہم نے نظام عدل ریگولیشن تحریک ِنفاذ شریعت محمدی کے کہنے پر نہیں بلکہ اہل سوات کے مطالبے پر نافذ کیا ہے اور ہم اس پر کاربند رہیں گے۔‘‘ اے این پی نے گویا معاہدۂ امن کی تمامتر پیش قدمی کو خاک میں ملادیا۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنا موقف بدلنے اور معاہدہ امن کو ختم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس کے جواب میں عالمی صورتحال اور حکومت کی سیاسی پوزیشن کو سامنے رکھنا ضروری ہے: فوری آپریشن کی وجہ معاہدۂ امن پر شدید ترین عوامی دباؤ کے پہلو بہ پہلو وفاقی حکومت امریکہ کے شدید عالمی دباؤ کا شکار تھی، حتیٰ کہ اِنہی دنوں امریکہ نے پاکستان کے آرمی چیف کو انتہائی پسندیدہ اور بااثر ترین شخص قراردینا شروع کیا، اور پاکستان کی سیاسی حکومت کو ناکام قرار دے کر نوازشریف کی حمایت اور ان کی حکومت قائم کرنے کا تاثر اُبھارنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے اس گہری تزویراتی اور سفارتی چال سے ہر پہلو پر کامیابی حاصل کی کہ نواز شریف کو حکومت کا لالچ دے کران کے امریکہ مخالف بیانات اور مصالحت جُو موقف میں کمی پیدا کی اور زرداری حکومت کو ڈرا دھمکا کر ان کواپنی اِطاعت پر مجبور کیا، اور اُنہیں دورۂ امریکہ کی دعوت دے دی، جہاں پہنچنے سے قبل زرداری کے نامہ اعمال میں کچھ ہونابہر حال ضروری تھا۔ یہی وہ اعصاب شکن سفارتی دباؤ اور چالبازی تھی جس کا سامنا پاکستانی حکومت اور اربابِ سیاست نہ کرسکے اور ۱۳/اپریل کو صدر کے معاہدۂ امن پر دستخط ہونے او ر بونیر و دیر سے صوفی محمد کی تلقین پر شدت پسندوں کے انخلا کے آغاز میں ہی سرحد حکومت نے وفاقی حکومت کے شدید دباؤ پر یو ٹرن لیا اور یک لخت تحریک ِنفاذ شریعت محمدی کو اپنے اعتماد سے خارج کرکے مسلح جنگ کا آغاز کردیا۔ قاضیوں کا تعین وہ آخری نکتہ تھا جس پر تحریک ِنفاذ شریعت اور حکومت میں ابہام ہوا، اور اسی دن حکومت ِسرحد کا لب ولہجہ تبدیل ہوا اور مسلح آپریشن شروع ہوگیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ۱۳/اپریل کو حکومت پر عوامی دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ صدر کو معاہدہ پر دستخط کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔آخر ایک ہفتے کے اندر کونسا ایسا