کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 54
موجود ہی نہ تھی۔ جب کہ معاہدۂ عدل کا واضح تقاضا یہ تھا کہ 1.۱) مذکورہ علاقے میں تعینات ہونے والے علاقہ قاضی کو شمال مغربی سرحدی صوبے کے عدالتی افسر کا درجہ اور حیثیت حاصل ہوگی۔ بہرنوع اس سلسلے میں ترجیح ان عدالتی افسران کو دی جائے گی جنہوں نے کسی تسلیم شدہ ادارے سے شریعت کے کورس کی تکمیل کی ہوگی۔ ‘‘ اس تسلیم شدہ ادارے کا مطلب بھی نظام عدل ریگولیشن میں یوں بیان کیا گیا ہے: 2. ح)’’شریعہ اکیڈمی جسے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آرڈیننس۱۹۸۵ء یا کسی ایسے ادارے کے تحت قائم کیا گیا ہو جو شرعی علوم کی تربیت دیتا ہو اور حکومت سے منظورشدہ ہو۔‘‘ اگر اس قاضی کے فرائض کا جائزہ لیا جائے تو اس ریگولیشن میں یہ مذکور ہے کہ 9.۲)قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ، قرآنِ مجید، سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع اور قیاس سے، ضروری ہدایات اور رہنمائی کی روشنی میں تمام مقدمات کی کاروائی کو چلائیں گے، جو شرعی قوانین کے طریقۂ کار کے عین مطابق ہوگی اور تمام مقدمات کے فیصلے بھی شریعت کے قوانین کی روشنی میں کئے جائیں گے۔ قرآنِ مجید اور سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، احکامات اور ہدایات کی تعبیر و تشریح کے پیش نظر قاضی اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ قرآنِ مجید اور سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مسلمہ اُصولوں کو ہر ہر قدم پر پیش نظر رکھیں گے اور اس مقصد کے حصول کی غرض سے اسلام کے تسلیم شدہ فقہا کی آرا اور خیالات کو بھی مدنظر رکھیں گے۔‘‘ ریگولیشن کے مذکورہ بالا آرٹیکلز کو ملا کر پڑھا جائے تو اس کا نتیجہ شریعت کے تعلیم یافتہ اور ماہر قاضی کی صورت میں ہی نکلتا ہے کیونکہ متعدد جرائم ومسائل ایسے بھی ہیں جن کی نہ صرف قانونی دفعہ بندی موجود نہیں تھی بلکہ خلافِ اسلام ہونے کے ناطے ان میں سے بیشتر معاہدہ کی رو سے منسوخ ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ ایسے کیسوں میں شریعت کا ماہر قاضی ہی کوئی فیصلہ کرسکتاہے ، نہ کہ انگریزی لا کا تعلیم یافتہ کوئی جج… بالخصوص اس وقت جبکہ معاہدۂ امن کے متن میں دار القضا کے قیام پر باہمی مشورہ کی واضح شرط بھی موجود ہے۔ اے این پی کی حکومت نے جو اَب تک بڑے زور وشور سے صدر کو نظامِ عدل پر دستخط کرنے کا مطالبہ کررہی تھی، اس اہم اور فیصلہ کن مرحلہ پر یو ٹرن لیا اور صوبہ سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے یہ بیان داغ دیا کہ