کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 53
معاہدہ میں اس کا تعین واضح طورپر ان الفاظ میں موجود تھا: ’’اس [کتاب وسنت، اجماع وقیاس] کے خلاف کوئی فیصلہ قبول نہیں ہوگا،اور اس کی نظرثانی یعنی اپیل کی صورت میں ڈویژن کی سطح پر دارالقضاء یعنی شرعی عدالت بنچ قائم کردیا جائے گا، جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔‘‘ چند سطری معاہدۂ متن کی اس واضح عبارت کے بعد سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی برتری کی بحث کو اُچھالنے کی بجائے اس کا سیدھا سا مطلب یہ بنتا ہے کہ ڈویژن کی سطح پر سپریم کورٹ کا ایک شرعی عدالت بنچ مقرر کردیا جائے گا جو آخری اتھارٹی ہوگا، لیکن اس پر اخبارات میں بے جا بحث مباحثہ میں وقت صرف کیا گیا۔ ٭ پھر اس معاہدہ کا اختتام جس اہم نکتہ پر ہوتا ہے وہ دارالقضا کا قیام ہے، جس کو شورش زدہ علاقے میں دو ماہ سے زیادہ مدت تک موخر کیاگیا، بعد ازاں دار القضا کو قائم کرتے ہوئے ایک بار پھر معاہدۂ امن کی واضح خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیا۔ چند سطری معاہدہ میں یہ موجودتھا کہ ’’حضرت صوفی محمدبن الحضرت حسن کے باہمی مشورے سے عدالتی شرعی نظام کے ہر نکتے پرتفصیلی غور کرنے بعد اس کا مکمل اطلاق مالا کنڈ ڈویژن بشمول ضلع کوہستان ہزارہ میں امن قائم کرنے کے بعدباہمی مشورہ سے کیا جائے گا۔ہماری حضرت صوفی محمدبن الحضرت حسن سے درخواست ہے کہ وہ اپنا پر امن احتجاج ختم کرنے کے بعدمالا کنڈ ڈویژن کے تمام علاقوں میں امن قائم کرنے میں حکومت کا ساتھ دیں ۔‘‘ معاہدہ کے اس دوسرے اور آخری پیراگراف سے جہاں صوفی محمد کے کردار کا علم ہوتا ہے کہ وہ طالبان کی مسلح سرگرمیوں کے عین برعکس اوراصلاح پسنداورپرامن شخص کا ہے، وہاں اس میں واضح طورپر خط کشیدہ الفاظ میں موجود ہے کہ ’’دار القضا کا قیام باہمی مشورہ سے کیا جائے گا۔‘‘ اس مرحلہ پر اے این پی کی سیکولر صوبائی حکومت کامنفی کردار سامنے آیا اس حکومت نے بادلِ نخواستہ امن معاہدہ کیا تھا تاکہ دینی قوت اس پر کاربند نہ رہ کر اتفاق واتحاد اور عوامی تائید سے محروم ہوجائے۔ ہمیں اس کردار کی نشاندہی مختلف مراحل پر نظر آتی ہے ،مثلاً اے این پی کی صوبائی انتظامیہ نے باہمی مشورہ کی بجائے اپنی حکومت کے زعم میں ایسے عدالتی افسران کو ’قاضی‘ بھرتی کردیا جن کی دینی تعلیم وتربیت اور شریعت کی مہارت سرے سے