کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 52
لیے اس موقع سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف میڈیا کی قوم کو رہنمائی کی یہ حالت ہے کہ تین ماہ کے اخبارات پڑھ جائیے، نظامِ عدل کے بارے میں ایک سنجیدہ تجزیہ تو کجا اس کا اُردو ترجمہ بھی آج تک قوم کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا۔ یاد رہے کہ روزنامہ جنگ میں تاحال اس کا نصف سے کم اور ناقص ترجمہ کئی اقساط میں شائع ہوسکا ہے۔ معاہدۂ امن کے حوالے سے وعدہ خلافی کس نے کی، اس کی سنجیدہ نشاندہی کی بجائے ہمارا بھاری بھرکم میڈیا مصالحے دار خبروں اور چٹخے دارتبصروں پر ہی انحصار کرتا رہا۔ یہ امریکی میڈیا کے اخبارات ہی ہیں جو آئے روز اپنی قوم کی خودساختہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ایٹمی پروگراموں اور حکومت کے خلاف نت نئی سازشوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں وہ پوری قوم مل کر ایک جنگ لڑتی اور اپنے شہریوں کو ایک رخ دکھاتی ہے جبکہ ہمارا میڈیا منتشر، غیرذمہ دار اور اپنے قومی ودینی مقاصد سے ناآشنا ہے جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں ۔ ٭ تحریک نفاذِ شریعت محمدی اور میڈیا کے ناروا کردار سے بڑھ کر اصل کوتاہی اور عہد شکنی ہماری حکومت نے کی جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شریک ہونے کے جرم کے ساتھ ساتھ مرکز ِ ریاست ہونے کے ناطے اپنے تمام شہریوں اور اربابِ ابلاغ کی کوتاہیوں کی بھی ذمہ دار ہے۔ معاہدۂ امن اور اسکے خاتمے کے سنگین مضمرات سے جس قدر حکومت آگاہ ہو سکتی ہے، کوئی اور نہیں ہوسکتا کیونکہ امن وسکون قائم کرنا حکومت کی ہی اوّلین ذمہ داری ہے۔ حکومت نے ۱۵/فروری کو ایک درویش منش شخص صوفی محمد کو امن کی ذمہ داری سونپ کرپہلے تو دو ماہ تک اس معاہدے کو ٹالے رکھا۔اس دوران متعدد بار صوفی محمد نے حکومت کو خبردار کیا، ڈیڈ لائنیں دیں اور معاہدۂ امن سے دستبردار ہونے کا کہا، آخر دو ماہ بعد جب ۱۳/اپریل کو صدر دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے تو رہی سہی کسر بیوروکریسی نے پوری کردی۔نصف صفحے کے معاہدۂ امن میں وہ تمام باتیں جو پہلے سے صراحت کے ساتھ طے کردی گئی تھیں ، اُنہی پر بعد میں فریقین کے مابین اختلاف کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ ٭ سب سے پہلے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے برتر ہونے کاشوشہ چھوڑاگیا،حالانکہ