کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 51
بھر میں پوری قوم کو صرف اپنے بیان کی قوت پر اپنے حق میں بدل دینا چاہتے تھے!! ان بیانات کے نتیجے میں ان کا مشن بری طرح متاثر ہوا، اوران کے مخالفین کو جہادِ کشمیر کے خلاف بیان دینے سے اُنہیں بھارتی ایجنٹ، آئین وجمہوریت کے خلاف بیان دینے سے ریاست کا باغی اور دینی قیادت کے خلاف بیان بازی سے متشدد اور انتہا پسند قرار دینے کا موقع ملا۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے ایسے بیانات میں اسلام کی بجائے ان کے ذاتی رجحانات کارفرما تھے۔جس سے ان کو حاصل ہونے والی اخلاقی تائیدختم ہوکر رہ گئی۔ جولوگ کوڑے لگانے کی خودساختہ ویڈیو سے متاثر نہ ہوئے تھے اور اس کو امریکی سازش باور کرتے تھے، وہ صوفی محمد کے ان بیانات سے لمحوں میں برگشتہ ہوگئے۔ میڈیا نے بھی اس قومی سانحہ کی درست نبض شناسی نہ کرتے ہوئے ماضی کی طرح اس کو دلچسپ چٹکلوں اور غیر ذمہ دارانہ صحافت کے اِظہار کا موقع گردانا۔ اس کے المناک نتائج جو آج برآمد ہورہے ہیں ،صد افسوس کہ خود کو باخبر اورباشعور ہونے اور قوم کو بحرانوں سے نکالنے کا دعویٰ کرنے والے میڈیا نے بھی اس المیہ کا ادراک نہ کیا اور صوفی محمد ایسے درویش منش شخص کو پیچیدہ سوالات میں اُلجھایا، ان کے جا بجا انٹرویوز نشر کرکے چبھتے سوالات داغے اور مصالحے دار رپورٹنگ کی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صوفی محمد کے یہ خیالات کوئی نئے نہیں تھے، لیکن اس موقع پر اُنہیں نمایاں کرکے چھاپنے سے میڈیا نے کس کا مقصد پورا کیا؟یہ سوچنے کا مقام ہے! جب صوفی محمد نے آئین پاکستان کو اسلامی قرار دیا اور کہا کہ ہمارے جج حضرات اس اسلامی آئین سے درست فیصلے نہیں کرتے اس اہم بیان کو اخبارات کے ذیلی سطور میں جگہ دی گئی، لیکن ان کے آئین مخالف خود ساختہ بیان کو بڑھا چڑھا کر نشر کیا۔ نان ایشوز کو ایشوز بناکر قوم کو اُلجھانا اورصوفی محمد سے بیان بازی کروانا میڈیا کا کارنامہ ہے یہ میڈیا اس سے قبل خودساختہ ویڈیوکو بغیر کسی تحقیق کے عوام میں بڑھ چڑھ کر پھیلانے کا سیاہ کارنامہ بھی انجام دے چکا تھا۔ قوم کو امن کی اس منزل سے دور کرنے اور المیہ سوات ومالاکنڈ تک پہنچانے میں میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔ میڈیا کے کارپردازان نے اپنی شریعت بیزاری کے اظہار کے