کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 50
حقائق ووقائع ڈاکٹر حافظ حسن مدنی معاہدۂ امن کیوں کر سبوتاژ ہوا؟ ۱۵/فروری ۲۰۰۹ء کو پاکستانی حکومت اور تحریک ِنفاذِ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ہونے والے معاہدۂ امن اور نفاذِ شریعت کی ہر مسلمان نے حمایت کی حتیٰ کہ ملا فضل اللہ نے بھی کہا کہ اگر شریعت نافذ ہوجاتی ہے تو وہ اپنا مسلح احتجاج چھوڑ کر پرامن ہوجائیں گے، لیکن افسوس کہ اس معاہد ے کے دونوں فریقوں نے اس عظیم کامیابی کو ذمہ داری اور جہد ولگن سے نبھانے کی کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے بدترین ملکی المیے کی صورت میں موجود ہے۔ ٭ اس معاہدہ کے ایک فریق صوفی محمد تھے جنہوں نے عظیم ذمہ داری قبول کی، امن مارچ کیا اور امن کیمپ بھیلگایا،اور اس عرصہ کے دوران اُنہوں نے کا فی حد تک مسلح عناصر کو کنٹرول کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی لیکن وہ میڈیا کے چبھتے سوالات پر مؤمنانہ فراست کا مظاہرہ نہ کرسکے۔جب وہ ایک اہم ترین عالمی تحریک کی قیادت کررہے تھے جس کے خلاف دنیا کی بڑی قوتیں متفق ومتحد تھیں ،ایک ایسے مرحلے میں اُنہوں نے اپنے آپ کو سوات کے ایک محلے میں بیٹھ کر اہل سوات کے لئے بیانات جاری کرنے والا ہی خیال کیا، اور نفاذِ شریعت جیسی عظیم منزل کو اپنے نادر اور انتہا پسندانہ خیالات سے بری طرح متاثر کیا۔ اُنہیں ابلاغی جنگ کا اِدراک کرنااور ایمانی فراست کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، لیکن اُنہوں نے نہ صرف میڈیا کے سوالات کے جواب میں بلکہ اپنے جلسہ عام میں بھی ملک کی مسلمہ دینی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے پیچھے نماز تک نہ ہونے کی بات کی، اُنہوں نے فتوائے کفر اورپگڑیوں کے رنگوں پر خیال آرائی شروع کی۔ آئین، جمہوریت اور جہادِ کشمیر پر ایسے بیانات دیے جس سے ان کی پیچھے متحد پوری قوم چند دنوں میں ہی ان کی مخالفت میں یکجا ہوگئی۔ اگر ان خیالات میں کوئی وزن بھی تھا تو یہ اُسلوب اور بیانات حکمت وفراست سے خالی تھے، وہ لمحہ