کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 5
کتنے برس گزرے کہ آئے روز ان قبائلی علاقہ جات کے مدارس میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والے معصوم بچوں کو اجتماعی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا، ایسے واقعات اس قدر کثیر تعداد میں رونماہوئے کہ اہل پاکستان سمیت ملت ِاسلامیہ، پاکستانی حکومت کی اجازت سے ہونے والے اس ظلم کو معمول کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کرنے لگی۔ اِن دنوں متاثرہ علاقوں کے مکین ردّ عمل اور انتقام سے مغلوب ہوکر یہ وارننگ دیا کرتے کہ اگر ہلاکتوں اور بمباریوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ہم پاکستان کا اَمن وسکون بھی تہ وبالا کردیں گے، لیکن ملک وملت کے کسی بہی خواہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور آج دہشت گردی کا یہ عفریت آہستہ آہستہ پورے ملک کے امن وسکون کو غارت کررہا ہے، جس کا سامنا دانش مندی اور حکمت عملی سے کرنے اور اس کی مناسب روک تھام کی بجائے ہم اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے خلاف ستم کی نئی تاریخ رقم کرنے چل پڑے ہیں ۔متاثرہ قبائلی علاقہ جات سے آنے والے بتاتے ہیں کہ آخراس ظلم سے تنگ آکر معصوم بچوں کے اجتماعی جنازوں میں شریک ہونے والے افراد نے قرآن پر حلف اُٹھائے کہ وہ اس ظلم کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ آج یہی عوامی غیظ وغضب طالبان کا روپ دھار چکا ہے جو دراصل طالبانِ انصاف ہیں اور اپنے ناحق مقتولین کے خون کی دہائی دیتے ہیں ۔ سوات ومالا کنڈ آپریشن کے بارے میں قوم میں دو رائیں اس بنا پر پائی جاتی ہیں کہ جو لوگ ان علاقوں میں جاری دہشت گردی کو ایک مستقل واقعہ تصور کرتے ہیں ان کا ردّ عمل یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی رٹ کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو پوری قوت سے کچل دیا جائے۔ اور جو لوگ ان علاقوں کی صورتحال کے پورے پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہیں ، سات برس سے جاری ظلم وستم کو تازہ رکھتے اور امریکہ کے بعد پاکستانی اَفواج کی جارحیت کو بھی یاد رکھتے ہیں ، وہ ان کے بارے میں ہمدردی کے جذبات رکھ کر، اُنہیں اپنا ہم وطن اور دینی بھائی جان کر ایک طرف ان پر ظلم وستم کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان مظلوموں کو ہرطرح کے شدید اقدام سے باز رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں ۔