کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 49
ہے۔ اگر خروج کا کوئی مسئلہ ہے تو بلوچستان میں ہے، اگر کوئی بغاوت کا مسئلہ ہے تو ایم کیو ایم کی بغاوت کا مسئلہ ہے۔ سرحد میں صرف مسئلہ ایک ہی ہے کہ نظامِ عدل ریگولیشن میں شریعت کا نام آتا ہے اور امریکہ کا ایجنڈا یہ ہے کہ یہاں پورے پاکستان میں ہم نے ترکی کی طرح سیکولر نظام نافذ کرنا ہے۔لہٰذا شریعت کا نام جہاں آگیا، اس کے خلاف امریکہ اپنا ایجنڈا پورا کر رہا ہے اور ہم امریکہ کے ایجنٹ بن کے یہاں کام کر رہے ہیں ۔ اس لیے دانش مندی یہ ہوگی کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ ہمارے باہمی اختلافی مسئلے کیا ہیں ، ہم ان کو بعد میں حل کرلیں گے۔ان شاء اللہ! ہم آپس میں بیٹھیں گے، صوفی محمد کے ساتھ بھی بیٹھیں گے اور جوپاکستانی طالبان ہیں ، صوفی محمد کو واسطہ بنا کر ہم اُن کے ساتھ بھی بیٹھیں گے لیکن ہم ان شاء اللہ یہ ظلم نہیں ہونے دیں گے کہ پاکستان میں شریعت کا حوالہ ہی مٹا دیا جائے۔ یہاں اگر کوئی بغاوت ہو رہی ہے تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی تائید کی جائے یا اس کو پھیلنے دیا جائے لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں فوجی کاروائی کوئی حل نہیں ہے۔ایسے ہی اگرچہ خود کش حملہ کرنے والے کھلے مجرم ہیں ۔لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ مجرم ہیں جس نے سب سے پہلے اپنے آپ کو ختم کیا ہے، ایسے مجرم کا نفسیاتی تجزیہ ضرور ہو نا چاہیے کہ اس کے اندر کیا محرومی اور مایوسی ہے؟ جب تک کسی کے اندر شدید محرومی(Frastration) اور مایوسی نہ پائی جائے، اس وقت تک کوئی شخص اپنے آپ کو ختم نہیں کرتا اور جو اپنے آپ کو ختم کرتا ہے، اس کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ میں اس لیے بار بار اس بات کو ذکر کررہا ہوں کہ ان کومجرم سمجھنے کے باوجود ہمارا امن وسکون تب ہی لوٹے گا، جب ہم ان محرومیوں کا تدارک کریں گے۔ یہ مایوسی اجتماعی طور پر کیوں پھیل رہی ہے۔ محرومی کا احساس اتنا کیوں پھیل گیا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ختم کر نے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں ۔ جب تک ان وجوہات کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ لوگ باقی اہل وطن کو بھی چین وسکون کا سانس نہیں لینے دیں گے۔ ہمیں دانش مندی سے اپنے حالات کا تجزیہ کرکے معقول حکمت ِعمل وضع کرنا ہوگی، تب ہی درپیش چیلنجوں اور ملکی سلامتی کے عظیم مقصد سے عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔(ترتیب: ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)