کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 47
کو کفر ضرور کہا، جمہوریت پر عمل پیرا علماء سیاستدانوں کو کافر قرار نہیں دیا بلکہ اُنہوں نے کہا ہے کہ میری فلاں فلاں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ یہ مسئلہ بھی کافی گھمبیر ہے اور ہمارے ہاں ایسے فرقے موجود ہیں جو دوسروں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے لیکن کیا ہم محض اس بنا پر اُن کو قتل کردیں گے؟ اس اَمر میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفی محمد اور طالبان کے ہاں انتہا پسندی موجود ہے۔ اگر اُنہوں نے یہ بات کہہ دی ہے تو پھر بھی یہ معاملہ اتنا خطرناک نہیں، بلکہ اصل مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ صوفی محمد نے کیا کوتاہی کی ہے او ردوسری طرف حکومت سے کیا غلطی ہوئی ہے جو آج صورتحال یہاں تک ابتر ہوچکی ہے کہ لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور اور ہمارے کئی علاقے بم دھماکوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ دن رات مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے ۔ صوفی محمد کے ساتھ ایک عہد ہواکیاوہ عہد ہمارے بے وفا صدر زَرداری نے توڑا ہے اوراس نے فوجی آپریشن شروع کرایا ہے اوردوسرا یہ کہ اُس نے جب جج مقرر کیے تو وہ بغیر مفاہمت کے مقرر کیے؟ اس طرح گویاصوفی محمد سے معاہدے پر بظاہر دستخط کرکے عوام کو دھوکہ دیا گیا اور درونِ خانہ اس کی مخالفت کی گئی۔ ہمارا صدر امریکہ کو تحفہ دینے کے لئے وہاں چلا گیا اوراپنی فوج کو حکم دے دیا کہ ان پر حملہ کر دو اور اس کا محض یہ جواز تراشا گیا کہ صوفی محمدکے دو بیانات ایسے آگئے ہیں کہ ان کے ساتھ پاکستانی عوام ردّ عمل کا شکار ہو کر بدک جائیں گے۔ میڈیا پر پراپیگنڈہ شروع کردیا گیا اور گویاتحریک نفاذ شریعت کے ارکان اور طالبان کو کافر قرار دے کر ان کا خون حلال سمجھ لیا گیا۔ اگر وہ لوگ غلط اور انتہاپسندی کررہے ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرو اور ان کوپکڑو۔ یہ کیا بات ہوئی کہ سوات میں گولہ باری کر دو۔ میں آپ کے سامنے وہ واقعات نہیں رکھ سکتا کہ جس طرح لوگ مارے جا رہے ہیں ۔ ایک روز قبل ۲۹/مئی کے جنگ میں حامد میرکا سلگتا کالم ’رحمانی بخش کی آگ کون بجھائے گا؟‘ آپ پڑھ لیجئے اور آج کے نوائے وقت میں قاضی حسین احمد کا مضمون پڑھ لیجئے کہ کس طرح پر امن اور معصوم شہریوں پرگولہ باری ہورہی ہے۔ میں آپ علماے کرام کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہاں مسئلہ قطعاً خروج یا بغاوت کا نہیں