کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 46
بھی ان کے خلاف کاروائی سے روکنا ہوگا۔اسی اثنا میں طالبان میں امریکی ایجنٹ بھی شامل ہوگئے۔اگرچہ طالبان پاکستانی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی لیکن یہاں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول یاد دلاتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا کیوں نہ دے سکے؟ وہ کہتے تھے کہ جن لوگوں میں نے پکڑنا اور اُنہیں سزا دینا ہے، ان پر مجھے پہلے کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب تک صوفی محمدپر ان کا اعتماد بحال نہیں ہوتا، اس وقت تک وہ طالبان جو ان کے اعتماد میں ہیں ،ان پر کنٹرول بھی ممکن نہیں ہو گا اور اس وقت تک امریکی طالبان درمیان میں خلط ملط ہونے کی وجہ سے شر انگیزی کرتے رہیں گے۔ اس بناپر صوفی محمد کا راست مطالبہ یہ تھا کہ پہلے حکومتی کاروائیاں بند کی جائیں ، لیکن ہماری حکومت کاروائی بند کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ 2. علاوہ ازیں صوفی محمد کا یہ بھی تقاضا ہے کہ جرائم اور طالبان کو کنٹرول کرنے کے لئے حدود نافذ کرناضروری ہیں ، اور میں اُنہیں شرعی سزا دوں گا۔ شریعت کی سزا دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ عدالتی طریقہ کار۱۹۶۹ء سے قبل فوری فیصلوں کا سا ہو، نہ کہ ہماری پاکستانی عدالتوں جیسا جس میں سالہا سال تک فیصلے ہی نہیں ہوتے اور مجرم کو سزا ہی نہیں ہوپاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے شریعت کا نظامِ عدل چاہیے جس کے ذریعے فوری سزا دی جاسکے۔ اسی نکتہ کو اُنہوں نے معاہدۂ امن میں بھی شامل کروایا تھا،کہ یہاں اعلیٰ عدالتوں کے جج باہمی مفاہمت سے مقرر کئے جائیں گے۔ اس معاہدے کو توڑا گیا اور وہاں ایسے ججمقرر کر دیئے گئے جو اینگلو سیکسن لاء کے تربیت یافتہ ہیں ۔ ان کے ذریعے پاکستان بھر میں امن وامان نہیں ہے ، سوات کے لوگ پہلے ہی ان کے خلاف متفق ہیں تو صوفی محمد ایسے جج حضرات کے ذریعے کیوں کر بدامنی پر قابوپاسکتے ہیں ؟ جہاں تک صوفی محمد کے ان بیانات کا تعلق ہے کہ جمہوریت کفر ہے یا جہادِ کشمیر ایک سرزمین کے حصول کے لئے ہے اور نفاذِ شریعت کے لیے نہیں تو صوفی محمد کے یہ بیانات کوئی آج کے نہیں بلکہ چودہ برس قبل بھی صوفی محمد کا یہی موقف تھا لیکن ان بیانات کو اُچھال کران سے یہ فائدہ اُٹھایا گیا کہ دیگر دینی تحریکیں جو اپنے علماء سے عقیدت رکھتی ہیں ، اُنہیں یہ باور کرایا گیا کہ وہ تمام علما کو کافر کہتے ہیں ، حالانکہ اُنہو ں نے ایسا نہیں کہا۔ اُنہو ں نے جمہوریت