کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 45
کر رہے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان کو بدنام کرنے کے لئے اپنے تمام ظلم اُن کے کھاتے ڈال دیتے ہیں ، ورنہ مسلمان طالبان جو کچھ بھی ہوں گے، ان کے خیالات میں تنگ نظری تو ہوسکتی ہے لیکن ان میں اپنے اقدامات اور مسلمان بھائیوں کے سلسلے میں کوئی احتیاط ضرور پیش نظر ہوگی۔ بہر حال میں اس نکتہ کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ جہاں تک اس مسئلہ کی نوعیت کا تعلق ہے تو یہ عہد وپیمان کا مسئلہ ہے۔ عہد وپیمان اگر مشرک یا کافر کے ساتھ ہو، تب بھی اس کی پاسداری ضروری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ(( أدِّ الأمانة إلی من ائتمنک ولا تَخُنْ من خانک))’’جس کی امانت تیرے پاس ہے، اس کی امانت واپس کر دے چاہے عہد کی صورت میں ہو یا کسی اور بھی صورت میں اور جس نے تیرے ساتھ خیانت کی تو اس کے ساتھ خیانت نہ کر۔‘‘ یہاں بھی مسئلہ در اصل عہدو پیمان کا ہے ۔ ۲۰۰۹ء میں جونظام عدل ریگولیشن معاہدہ امن کی صورت منظور ہوا ہے، اس میں تحریک نفاذِشریعت کے سربراہ صوفی محمد کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئیکہ آپ نے طالبان کو کنٹرول کرنا ہے ۔ اگر چہ ان کے داماد مولوی فضل اللہ پہلے ہی اس وجہ سے مظلوم ہیں کہ ان کے بھائی سمیع اللہ کو ۲۰۰۴ء میں ڈرون حملوں میں شہید کر دیا گیا تھا، لیکن اس ظلم کے باوجود فضل اللہ کا یہ بیان آیا کہ اگر یہاں شریعت کا نفاذ ہوجاتا ہے تو میں صوفی محمد کی بات تسلیم کرلوں گا اورہم تمام لوگ ہتھیار ڈال کر پرامن ہوجائیں گے، اپنا غصہ تھوک دیں گے۔ اس کے باوجود دو طرح سے اس اہم معاہدہ میں خیانت کی گئی: 1. اب بھی کہا جارہاہے اور مولانا فضل الرحمن کا بیان بھی آج کے اخبارات میں آیا ہے کہ اُنہو ں نے کہا کہ مجھے ایک مقتدر شخصیت نے کہا تھا کہ سب سے پہلے بیت اللہ محسود کے ساتھ بات چیت کرو لیکن جب بیت اللہ محسودکا تقاضا یہ ہوا کہ ان کے خلاف فوجی حملے بند کئے جائیں ۔ اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اصل مسئلہ اس فوجی کاروائی کا ہے جس کو حکومت امریکہ کے دباؤ میں جاری رکھنے پر مجبور ہے اور اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ یہی بات صوفی محمد نے کہی تھی کہ میں طالبان کو کنٹرول اور پرامن کرتا ہوں لیکن حکومت کو