کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 42
وسط ِایشیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کرناچاہتے تھے، لیکن یہ ثانوی مقصد تھا۔ دراصل ان انتہا پسندوں کے نظام کودرہم برہم کرنا اُن کا بنیادی مقصد تھا، یہ نظریات کی جنگ ہے جس میں مالی مفادات بھی پیش نظر ہیں ۔ مجاہدین نے عراق پر امریکی قبضہ کے فوراً بعد مزاحمت شروع کردی۔ آئے روز گوریلا کارروائیوں میں نیٹو فوجی ہلاک ہورہے ہیں ۔مغربی تھنک ٹینک نے اتحادی فوج کی مایوسی اور مجاہدین کے تازہ دم ولولہ کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کیا کہ عراق امریکہ کے لیے ویت نام بن چکا ہے۔ تب امریکہ میں بش کی عراق پالیسی کے خلاف مظاہرے ہوئے تو بش نے عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے ہر جگہ کہہ رہا ہے کہ دہشت گرد از سرنو خلافت آئیڈیالوجی کو پھیلاناچاہتے ہیں ملاحظہ کیجئے: ’’امریکی صدر بش نے ۱۱/اکتوبر ۲۰۰۶ء کو وائٹ ہاؤس میں تقریرکرتے ہوئے ایک ہی جملہ تین مرتبہ دہرایا کہ ’’عراق میں امریکی فوجوں کی موجودگی صرف اس لیے ہے کہ دہشت گردوں کو خلافت ِاسلامیہ جیسی مملکت قائم کرنے سے روکا جاسکے۔‘‘ بش نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ دہشت گرد خلافت آئیڈیالوجی کو پھیلانا چاہتے ہیں اور ایک ایسی مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں آزادی اور لبرل ازم کی کسی چیز کا کوئی تصور نہ ہو۔امریکی صدر بش نے کہا کہ خلافت اسلامیہ کی طرز پر انتہا پسندوں کی مملکت قائم ہونے سے امریکی و یورپی ممالک کے مفادات اور سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔‘‘ ( ہفت روزہ ندائے ملت: ۲۶/اکتوبر ۲۰۰۶ء) تاریخ اسلام کا دورِ خلافت جس میں مسلم حکمران یورپ میں داخل ہوکر دعوت و جہادکا پرچم بلند کرتے رہے،حیرت ہے کہ مغربی فکروفلسفہ سے متاثر جدید مسلم سکالر بنواُمیہ سے بنی عثمانیہ کے دور کو اسلامی حکومت میں شمار نہیں کرتے، لیکن اہل مغرب آج بھی نظامِ خلافت سے لرزہ براندام ہیں ۔ عراق کی آٹھ مزاحمتی تنظیموں نے ’دولت العراق الاسلامیہ‘ کے نام سے اپنی حکومت کااعلان کردیاہے۔ یہ درست ہے کہ عرب حکمران محو ِاستراحت ہیں ،لیکن عرب عوام میں جہادی جذبہ اُمڈ آیا ہے۔ وہ اہل مغرب کے خدشہ کو حقیقت کارُوپ دینے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں ۔ وہ خلافت آئیڈیالوجی کو مشرق و مغرب میں پھیلا کر رہیں گے۔ ان شاء اللہ!