کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 41
خاندان کی منتقلی پر کسی امام یا محدث نے مخالفت نہیں کی۔ اور وسیع و عریض سلطنت میں نہ سہی کم از کم دارالخلافہ میں بالغ رائے کی بنیاد پر انتخابات کرانے کامطالبہ کبھی نہیں کیاگیا۔ یورپی اقوام نے مسلم ریاستوں پر تسلط جمایاتو اُنہوں نے مغربی فکروفلسفہ کی بنیاد پر ایسا نصابِ تعلیم وضع کیا کہ ملت ِاسلامیہ کی نئی نسل کثرت ِرائے کے معیار حق ہونے کی ترجمان بن گئی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان سلیم اور سلطان محمود غزنوی کی حمیت ِاسلامی اور تاریخی کارنامے ماند پڑگئے اور مغربی جمہوریت کے فکر و فلسفہ کے داعی اُن کے ہیرو بن گئے۔ روس میں سوشلزم کی بیخ کنی کے بعد کرۂ ارض میں نظامِ خلافت اورنظامِ جمہوریت کے مابین جنگ جاری ہے۔ عالمی سطح پر جو لیڈر جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت کی تبدیلی کے لیے آئینی جدوجہد کرتے ہیں ، اہل مغرب اُن کو گڈ بک میں جگہ دیتے ہیں ۔ وہ لیڈر یا تنظیمیں جواس کے علاوہ کسی اور نظام پر اعتماد رکھتی ہیں اہل مغرب کے نزدیک انتہا پسند ، ظالم اور دہشت گرد ہیں ۔امریکی صدر بش نے اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے ذیل میں دی گئی رپورٹ سے ملاحظہ فرمائیے: ’’جارج ڈبلیو بش نے کیلیفورنیا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں عوام کو ذہن نشین کرانا چاہتاہوں کہ ہم اکیسویں صدی کی نظریاتی جدوجہد میں ہیں ۔ یہ جدوجہد اچھائی اور بُرائی کے درمیان ہے۔ یہ جدوجہد جمہوریت پر یقین رکھنے والوں اور ظلم و تشدد کی مدد کرنے والوں کے مابین ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے مستقل منصوبہ بندی اور سازشوں میں مصروف ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد ہم نے یہ عزم کررکھا ہے کہ جب تک ان انتہا پسندوں کو شکست نہیں دے لیتے اوران کا خاتمہ نہیں کرلیتے ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘ (نوائے وقت، لاہور:۶/اکتوبر۲۰۰۶ء) صہیونیت نے سوشلزم کی حوصلہ شکنی کرنے کے بعد اسلام کو اپنا ہدف بنالیا۔ نائن الیون کا حادثہ اس سازش کی کڑی تھی۔ پینٹاگون کی فرضی تحقیق میں جو مسلمان ملوث کئے گئے، اُن میں ایک بھی طالبان نہ تھا، لیکن طالبان کا قصور یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنی قیادت کو بالغ رائے دہی سے منتخب نہیں کیاتھا۔ عوام سے قانون سازی کے اختیار سلب کر لیے اور فقہ ِاسلامی کو قانونی اتھارٹی دی۔ یہی جرم انتہا پسندی ہے جس کے وہ مرتکب ہوئے۔ یہ درست ہے کہ اہل مغرب