کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 40
عموماً اس کی مسند یاادارہ کی ذمہ داری اس کے بیٹے کے سپرد ہوتی ہے۔ کیونکہ باپ کے بعد اہل بیٹے کو منتقل کرنے میں حکمت ِعملی یہ ہوتی ہے کہ جماعت/حلقہ میں یکجہتی و سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ باپ کے بعد بیٹے کی جانشینی نے خلافت کو ملوکیت میں منتقل نہیں کیا بلکہ یہ تدریحی عمل سے ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورمیں جو استحکام تھا، وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں نہ رہا۔ بیرونی فتوحات کا سلسلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک جاری رہا وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں رک گیا۔ ابوالکلام آزاد اس تدریجی عمل کی وضاحت یوں کرتے ہیں : ’’نبوت و رحمت کی برکات کی محرومی و فقدان کا ایک تدریجی تنزل تھا۔ اور بدعات و فتن کے ظہور و اِحاطہ کی ایک تدریجی ترقی تھی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے شروع ہوئی اور جس قدر عہد ِنبوت سے دوری بڑھتی گئی، اتنی ہی عہد ِنبوت اور خلافت و رحمت کی سعادتوں سے اُمت محروم ہوتی گئی۔ یہ محرومی صرف امامت و خلافت کبریٰ کے معاملہ میں ہی نہیں ہوئی بلکہ قوام و نظام امت کے مبادیات و اساسات سے لے کر حیاتِ شخصی و انفرادی اعتقادی و عملی جزئیات تک ساری باتوں کا یہی حال ہوا۔‘‘ (مسئلہ خلافت : ص۱۰) تابعین کا زمانہ خوب ہے، لیکن اس کاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے موازنہ کرنا نامناسب ہے، اس طرح بنواُمیہ کے دور کا خلفاے راشدین سے تقابلی جائزہ کرنا غیر دانش مندانہ فعل ہے، کیونکہ خلفاے راشدین کا دور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا عکس ہے، البتہ ملوکیت کاموازنہ کرنا چاہیں تو آپ امن و انصاف ، دعوتِ دین، اُمت ِمسلمہ کا دفاع اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو بنیاد بنا کر اس جمہوری دو رسے موازنہ کریں جو خلافت کے انہدام کے بعد مسلم ممالک میں رائج ہوا۔ مثلاً دورِ خلافت میں مساجد میں شرعی عدالتی فیصلے ہوتے تھے، آج عدالتوں میں ۔ اُس دورمیں اسلامی فقہ کو اتھارٹی حاصل تھی، آج عوامی تھانوں کوہے۔ اس دور میں اسلامی قانون کے ماہر جج مقرر ہوتا تھا، آج مغربی قانون کا ماہر۔ یہ درست ہے کہ دورِ خلافت میں دین و دنیا میں تدریجی عمل سے خلیج حائل ہوئی، لیکن جمہوری دور نے ان کے مابین دیوارِ چین حائل کردی ہے۔ بنو اُمیہ سے عثمانیہ دور تک نیک و بد حکمران آتے رہے تاہم کسی خلیفہ نے اسلام کے منافی قدم اُٹھایا یا قرآن و سنت کی من مانی تعبیر کی تو وہ راہِ حق میں عزیمت کا پہاڑ بن گئے۔ کوڑے کھا کر اَدھ موئے ہوگئے۔ جیل کی کال کوٹھڑیوں سے جنازے نکلے لیکن خلافت کی ایک ہی