کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 4
اور غصہ بڑھ رہا ہے۔ جس دن مظلوموں کے سینے میں بھڑکنے والی آگ ٹھنڈی ہو گی، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت جائیں گے۔‘‘ (روزنامہ جنگ، ۲۸/مئی ۲۰۰۹ء) اس تحریر میں مہاجرینِ سوات کی الم ناک صورتحال کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ان مہاجرین کے پریشان کن حالات سے زیادہ فکرانگیز امر یہ ہے کہ رحمانی بخش اور اس جیسے کئی دیگر مظلوموں کے سینے میں جل اُٹھنے والے رنج والم کے دیے کون بھجائے گا؟اپنے پیارے کنبے کے افراد کی جدائی اور مظلومانہ ہلاکت سے اگر کوئی شخص ردعمل اور انتقام کے جذبات کا شکارہوگیا تو اسے اپنے غصے کے اظہار کا کوئی موقعہ درکار ہوگا۔اس پر مستزاد یہ کہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک دردناک انجام کی طرف بڑھتی ہے،کیونکہ یہ ظلم وستم صرف اکیلے رحمانی بخش پر نہیں ہوا بلکہ مہاجرین کے ہردوسرے گھرانے کو اس کا سامنا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب سوات ومالاکنڈ کے علاقوں میں پھیلے ۵۰ کے لگ بھگ امریکہ کے انٹیلی جنس یونٹوں کا کام شروع ہوتا ہے۔پاک افغان سرحد پر۱۷ سے زائد بھارتی قونصل خانے سرگرم ہوجاتے ہیں اور انتقام کی آگ میں جلنے والے مسلمانوں کو اپنے ظالمانہ مقاصد کی بھینٹ چڑھانے کے مکروہ منصوبہ پر عمل درآمدشروع کرتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ظلم وستم کی یہ کہانی کئی برسوں سے دہرائی جارہی ہے، پاکستانی طالبان کا موجودہ کردار بھی ۲۰۰۴ء کے جنوبی وزیر ستان کے ظالمانہ آپریشن کا ردّ عمل ہے جس کے مہلک اثرات نے دیگر علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ ہم یہاں بیت اللہ محسود، مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد کی بے جا وکالت نہیں کرنا چاہتے لیکن واقعاتی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج کے خلاف حالیہ مسلح جدوجہد کے دو اوّلین کرداروں کو بھی حکومتی جارحیت کے نتیجے میں اپنے پیاروں سے جدا ہونا پڑا تھا، فضل اللہ کا بھائی سمیع اللہ ۲۰۰۴ء میں ایک فوجی حملے میں مارا گیااور صوفی محمد کے بیٹے کی ہلاکت تو ابھی چند روز کا واقعہ ہے۔۲۰۰۷ء میں لال مسجد کی عفت مآب بیٹیوں کے جسموں کو پگھلا کر جب برساتی نالے میں قرآن کریم کے مقدس اوراق کے ساتھ بہایا گیا تو ان سرحدی علاقوں کے نوجوانوں میں انتقامی نفسیات نے جنم لیا۔