کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 39
مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خلافت تیس سال رہے گی۔ خلفاے راشدین کی حکومت۱۱ ہجری سے ۴۱ہجری تک رہی۔ وہ دراصل خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی بشارت تھی جس کے بارے خود شارع علیہ السلام نے وضاحت فرما دی: (( علیکم بسنتي وسنة خلفاء راشدین)) (سنن ابوداؤد:۴۶۰۷)تم پر میرا اور خلفاء راشدین کاطریقہ لازم ہے۔‘‘ دورِ نبوی کے بعد خلفاے راشدین کاطرزِ عمل مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ جن کو بنیادبنا کر قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کا حل تلاش کرسکتے ہیں ۔ لیکن اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ تیس سال کے بعد نظامِ خلافت یکسر ختم ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت دائمی، ابدی اور عالمی حیثیت کی حامل ہو، پھر یہ کہنا کہ آپ کا رائج کردہ نظام ۳۰ سال تک رہا اس کے بعد یکسر ختم ہوگیا، یہ نظریہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ جن کے اَدوار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالترتیب بہترین زمانہ قرار دیا ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ اُن کے سامنے نظامِ خلافت کلی طورپر منہدم ہوگیا ہو اور وہ خاموش رہے ہوں ؟ اگر باپ کے بعد بیٹے کی جانشینی شرعی جرم ہوتاتو قرونِ اولیٰ کے مسلمان ضرور مزاحمتی کارروائی کرتے۔ بنو اُمیہ سے عثمانیہ دور تک محدثین وفقہاے کرام نے اسلام کی سربلندی کے لیے عزیمت کی داستان رقم کی۔ یہ درست ہے کہ قبائلی عصبیت کی بنا پر بغاوتیں ہوئیں ،کہیں لہوولعب کو ہدف بنا کر مخالفت کی گئی، لیکن کسی تحریک نے موروثی خلافت کے خاتمہ کے ایشو نہیں بنایا۔ کیاوہ سب شریعت کے بنیادی فرض کی تکمیل سے غافل رہے۔ ملت ِاسلامیہ کے عظیم فاتح حکمرانوں کے تاریخی کردار کو داغ دار کرکے نئی نسل کو اسلاف سے متنفر کرنا اسلام کی خدمت نہیں بلکہ مغرب نوازی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ اہل مغرب کے پرستار اعتراض کرتے ہیں کہ بعد کے دورِ حکومت میں جمہوری روح نہ تھی، وہ جمہوریت کی ماں برطانوی حکومت پراُنگلی کیوں نہیں اٹھاتے کہ تمہارے ہاں آئینی طور پر بادشاہت کیوں قائم ہے؟ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ کسی صوفی یا عالم نے دین کی خدمت کی یا مسجدو مدرسہ قائم کیا تو