کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 38
ابوالکلام آزاد تحریر کرتے ہیں : ’’عثمانی ترک نہ تو عرب پرقانع ہوئے نہ ایران و عراق پر، نہ شام و فلسطین کی حکومت اُن کو خوش کرسکی، نہ وسط ایشیاکی بلکہ تمام مشرق سے بے پروا ہوکر یورپ کی طرف بڑھے۔ اُس کے عین قلب (قسطنطنیہ) کو مسخر کرلیا اور اور اس کی اندورنی آبادیوں تک میں سمندر کی موجوں کی طرح در آئے حتیٰ کہ دارالحکومت آسٹریا کی دیوار اُن کے جولانِ قدم کی ترکتازیوں سے بارہا گرتے گرتے بچ گئی۔ ترکوں کا یہ وہ جرم ہے جو یورپ کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کاکوئی موجودہ حکمران خاندان اس جرم (فتح یورپ) میں اُن کا شریک نہیں ہے۔ اس لیے ہرحکمران مسلمان اچھا تھا جو یورپ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا مگر یہ ترک وحشی و خونخوار ہے اس لیے کہ یورپ کا طلسم سطوت اُس کی شمشیر بے پناہ سے ٹوٹ گیا۔‘‘ (مسئلہ خلافت، ص۱۱۶) ’’مسلمانوں کے جس دورِ خلافت کو جدید مفکر اسلامی حکومت تسلیم نہیں کرتے، اس دور میں امریکی جہازمسلمانوں کی اجازت کے بغیرسمندر میں حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ’’محض تقریباً دو سو سال قبل عثمانی خلیفہ سلیم سوم کے دورِ حکومت میں خلافت کا الجزائر کا گورنر اس وقت کے امریکہ سے سالانہ چھ سو بیالیس ہزار ڈالر سونے کی صورت میں اور بارہ ہزارعثمانی سونے کے سکے بطورِ جزیہ وصول کرتا تھا۔ اس ٹیکس کے جواب میں الجزائر میں امریکی قیدیوں کی رہائی اور امریکی جہازوں کی بحرالکاہل اور بحرقلزم سے حفاظت کے ساتھ گزرنے کی گارنٹی دی جاتی تھی کہ عثمانی خلافت ان پر حملہ نہیں کرے گی۔‘‘(روزنامہ انصاف:۲/ستمبر۲۰۰۶ء) اورآج افسوس کن صورتحال یہ ہے کہ امریکی بحری بیڑے مسلم بندرگاہوں پر لنگرانداز ہیں اور وہ افغانستان اور عراق پر میزائل داغ رہے ہیں ۔ دورِ خلافت میں قائم وتابندہ رہنے والی حمیت ِاسلامی وہ بنیادی جرم تھا جس کو مغرب نے معاف نہیں کیا۔ اُنہوں نے سازشی جال پھیلا کر خلافت ِعثمانیہ کو پارہ پارہ کردیا۔ اگر جمہوری نظام میں ملت ِاسلامیہ کی یکجہتی و سلامتی اور اسلام کی عظمت و شرکت برقرار رہ سکتی تو ہمارے دشمن نظامِ خلافت ختم کرکے ترکی میں جمہوریت کو قطعاً رائج نہ کرتے۔