کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 37
1. علامہ ابن خلدون ’دینی حکومت‘ کی تعریف کرتے ہیں : ’’اگر یہ قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرتب و وضع ہو کر کسی رسول یا نبی کے ذریعے مخلوق تک پہنچیں تو اس کو ہم ’سیاست دینی‘ سے تعبیر کریں گے… نظامِ خلافت اس سے عبارت ہے کہ سب کو شرعی نقطہ نظر کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کیا جائے جس سے آخرت کی سعادت بھی نصیب ہو اور دنیا کی وہ مصلحتیں بھی بہم پہنچیں جو سعادت اُخروی میں معاون و مددگار رہیں ۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون: ص۱۹۶) عصر حاضر کی مسلم حکومتیں خواہ وہ آمرانہ ہوں یا عوامی طرز کی وہ انسان کی مادی فلاح کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کرتی ہیں اور کہیں آخرت کی کامیابی کے لیے روحانی فلاح کا تصور تو ہرگز نہیں ہے۔ 2. مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ کے اقوال کی روشنی میں نظامِ خلافت کی تعریف کی ہے: ’’مسلمانوں کی ایسی حکومت جو ارکانِ اسلام کو قائم رکھے، جہاد کا سلسلہ و نظام درست کرے، اسلامی ملکوں کو دشمنوں کے حملہ سے بچائے اور ان کاموں کے لیے فوجی قوت کی ترتیب اور لڑائی کا سامان وغیرہ جوکچھ مطلوب ہو، اُس کاانتظام کرے، مختصر یہ کہ اسلام کا خلیفہ وہ حکمران ہوسکتاہے جواسلام و ملت کے لیے دفاع و جہاد کی خدمت انجام دے سکے۔‘‘ (مسئلہ خلافت: ص۱۲۶) جہاں تک خلافت کی پیش نظر تعریف اورخلیفہ کے فرضِ منصبی کا تعلق ہے تو خلافت ِعثمانیہ تک مسلم حکومتیں اسلامی تھیں جنہوں نے اُمت ِمسلمہ کے دفاع اور اسلام کی سربلندی کے لیے جہاد کا فریضہ سرانجام دیا۔ خلافت ِاسلامیہ کے دور تک وسیع و عریض علاقے فتح ہوئے جہاں کی مقامی آبادی اسلام کے نظامِ عدل سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئی، لیکن نئی نسل اس سے بے خبر ہے کیونکہ ثانوی درجہ تک علم تاریخ کا نصاب نو آبادیاتی دور کی تحریک ِآزادی تک محدود ہوکررہ گیا ہے۔ یونیورسٹی سطح پر بنواُمیہ اوربنوعباسیہ کی تاریخ شامل نصاب رہی ہے، لیکن عثمانیہ دور کی تاریخ سے نئی نسل کو محروم رکھا گیا۔ بنو اُمیہ اور عباسیہ کے دور میں فتوحات کا دائرۂ کار ایشیا اورافریقہ تک رہا، لیکن عثمانی ترکوں نے یورپ کے مرکز میں جاکر ’اللہ اکبر‘ کی صدا بلند کی۔