کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 36
کے شرعی اوصاف ہوں تو اُمت کے اتحاد ویکجہتی کی خاطر اُس کو خلیفہ منتخب کرنا شرعاً ناجائز نہیں لیکن جمہوریت کے دعویدارمسلم مفکرین کے نزدیک یہ ملوکیت ہے۔یہ طرزِ عمل سیاسی و قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تک خلفاے راشدین کا انتخاب دارالخلافہ میں مقیم شوریٰ کے مشورہ اور مسلمانوں کی اطاعتی بیعت سے ہوا۔ انتخاب کے دوران دیگر محکوم علاقوں کے مسلم مدبرین کے مشورہ اور بالغ رائے دہی کا ذکر تاریخ میں نہیں ہے۔ مجلس شوریٰ کے ارکان بھی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ اہلیت و قابلیت اور دعوت و عزیمت کی قربانیوں کی بدولت معروف ہوئے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے طے کریں تاکہ پیش آمدہ مسئلہ کے تمام ممکنہ پہلوؤں پر غور و فکر کیا جائے کہ کون سا پہلو اقرب الیٰ الحق ہے اور کتاب و سنت سے مطابقت رکھتا ہے۔ خلفاے راشدین کے دور میں شورائی انداز میں فیصلے ہوتے رہے جمہوری دور کی طرح سروں کوگننے کا رواج قطعاً نہ تھا۔ نظامِ خلافت تدریجی انداز میں زوال پذیر ہوا !! بنو اُمیہ (۶۶۱ء) سے لے کر عثمانیہ دور (۱۹۲۴ء) تک خلافت ِاسلامیہ قائم رہی، لیکن جدید مسلم مفکرین اس کو اسلامی حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ ’اسلامی حکومت‘سے کیا مراد ہے؟ بنی نوع انسان کی اجتماعی زندگی کے لیے حکومت کا قیام ضروری ہے، وہ حکومت عوام کی عزت، جان و مال کے تحفظ کے لیے قوانین وضع کرتی ہے۔ جب حکومت پرفائز اپنی مرضی سے قوانین بنائے تو شخصی حکومت ہوئی جب درباریوں کے مشورہ سے قانون سازی کرے تو اَشرافیہ کہلائی اور جب عوام کی منشا کے مطابق قانون تشکیل کرے تو اسے عوامی حکومت کہا جاتاہے۔ مذکورہ فلاحی حکومتوں کو مملکت ِسیاسیہ تو کہہ سکتے ہیں ، لیکن دینی نہیں ، کیونکہ یہ انسانی عقل کے مطابق قانون وضع کرتی ہیں اور ان کامقصود یہ ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے منافع حاصل کرسکے اوراس کی مضرتوں سے بچ سکے۔