کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 33
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ صرف اہل مدینہ کے چیدہ چیدہ احباب سے مسلسل تین دن رات مشورہ کرتے رہے، وہ احباب کی رائے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں گنتے نہیں رہے بلکہ علم و شعور کی کسوٹی پر پرکھتے رہے۔ آخر کار اُنہوں نے اس بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا تھا کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ پہلے دونوں خلفا کے نظائر کابھی اتباع کریں گے، یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تسلیم نہیں کی تھی۔ ظاہر ہے کہ وسیع و عریض سلطنت میں لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی میں سے خلیفہ کے چناؤ کے لیے فردِ واحد کو ثواب دیدی اتھارٹی دینا جمہوری قواعد و ضوابط کے عین منافی ہے۔ 4. شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت بلوائی مدینہ پر چھائے ہوئے تھے اور پورے شہر کا نظم و نسق ان میں سے ہی ایک شخص غافقی بن حرب کے ہاتھ میں تھا۔ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر تو متفق تھے، لیکن آئندہ کس کو خلیفہ مقرر کریں ؟ اس بارے اختلاف تھا۔ مصری حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں تھے، کوفی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو چاہتے تھے اور بصری لوگ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنانا چاہتے تھے مگر تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔ پھر وہ یکے بعد دیگرے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ اُنہوں نے صاف انکار کردیا کہ ہمیں امارت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ پس ان لوگوں کوخطرہ لاحق ہوا کہ اگر ہم شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بغیر امیر کے تقرر کے اپنے شہروں کو چلے گئے تو ہماری خیر نہیں ، چنانچہ ان لوگوں نے اہل مدینہ سے کہا کہ تمہیں دو دن کی مہلت ہے۔ اس دوران کوئی امیر مقرر کرلو، ورنہ اگلے دن ہم علی رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں کو قتل کردیں گے۔ اس کے بعد وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، کہنے لگے، ہم آج امارت کے لیے آپ سے زیادہ مناسب کوئی آدمی نہیں سمجھتے۔ مسابقت فی الاسلام کی وجہ سے بھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت کی وجہ سے بھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ایسانہ کرو، میں امیر بننے سے زیادہ وزیر بننا پسند کرتاہوں ۔‘‘ لوگوں نے کہا خدا کی قسم! ہم تو آپ ہی کی بیعت کریں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر یہ مسجد میں ہوگی۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر مسجد ِنبوی آئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خواہش کے باوجود اہل شوریٰ اور اہل بدر کے جمع ہونے کا موقع میسرنہ آسکا۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے بقول: