کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 31
امام ابن خلدون نے الأئمة من قریش کہ امام قریش سے ہوں گے، کے ضعف پر اپنے مقدمہ میں بحث نہیں کی۔ بلکہ اس شرط کی حکمت پر روشنی ڈالی: ’’قریش کی زبردست عصبیت کے ماتحت امام میں قریش النسب ہونے کی شرط لگی تاکہ پوری ملت اتفاق و اتحاد کے رشتہ میں منسلک ہوجائے اور انتظام و انصرام بہ احسن وجوہ تکمیل پائے چنانچہ جب امارت و امامت قریش کے ہاتھ میں آئی تو قبائل وفد نے اس کا ساتھ دیا تو پھر سارا عرب قریش کے سامنے سرنگوں ہوا۔ پھر اسلامی فوجوں نے دور دراز ملکوں کو اپنے پاؤں سے روند ڈالا۔عہد ِبنی اُمیہ اور بنی عباس میں امامت کی یہی بڑھتی ہوئی شان و شوکت باقی رہی یہاں تک کہ خلافت کمزور پڑ گئی اور عرب عصبیت کا شیرازہ بکھرا۔‘‘ (مقدمہ: ص۲۰۰) تیرہ صدی تک کسی محدث یا فقیہ نے جن احادیث کو موضوع نہیں کہا، چودہویں صدی میں مصری ڈاکٹر حسن ابراہیم نے جمہوریت کی نفی کرنے والی حدیث کو سرٹامس آرنلڈ کا ریمارکس دے کر لکھ دیا کہ وہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط منسوب کردی گئی ہیں ۔‘‘ اسلامی تاریخ پر مغرب میں ریسرچ کرنے کانتیجہ ہے کہ اُنہوں نے احادیث کی صحت کو پرکھنے کے لیے مغربی فکروفلسفہ کو کسوٹی بنایا۔ جدیدیت کی یہی لہر مسلمانوں کے فکری زوال کا سبب ٹھہری۔ خلفاے راشدین کا تعین شورائیت سے ہوا 1. واضح رہے کہ خلفاے راشدین مجلس شوریٰ کے مشورہ سے نامز د ہوئے، عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں ہنگامی حالات کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عزیمت اور تحمل مزاجی اور بشیر بن سعد انصاری کے خلوص نے خاطر خواہ اثر کیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’یہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ، ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کرلو۔ اس پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اُٹھے اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا: ’’آپ ہم سب میں سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریب ہیں ، اس لیے ہم سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ۔ یہ سنتے ہی سعد بن عبادہؓ کے سوا تمام حاضرین نے اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ دوسرے دن مسجد ِنبوی میں اعلانیہ بیعت ہوئی۔ اکثریت کا دعویٰ کرنے والے انصار قبیلہ قریش کی عرب میں حیثیت اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت سے متعلق دلائل سن کر حق خلافت سے دستبردار ہوگئے، اگر خلفاء راشدین کا دور جمہوری ہوتا تو