کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 30
علامہ نے متعدد واقعات پیش کرکے اُمت ِمسلمہ کو دعوت دی ہے کہ غیرمسلموں سے حکمت کی باتیں حاصل ہوجائیں تو اُنہیں اختیار کرلیناچاہئے تاہم قرضاوی صاحب کی مذکورہ عبارت اس بات کا بھی بین ثبوت ہے کہ خلفاے راشدین کا دور جمہوری نہ تھا۔ اس جمہوری ملک میں ہر بالغ عاقل مسلمان قومی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اوراپنی رائے کااظہار کرسکتا ہے۔ جمہوری نظام میں کثرتِ رائے معیارحق ہے۔ مذکورہ اُصول کومدنظر رکھ کر خلفاے راشدین کے انتخاب کا مطالعہ کریں ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو سعد بن عبادہ نے اَنصاریوں کو سقیفہ بن ساعدہ میں امر خلافت طے کرنے کے لیے اکٹھا کیا۔ تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمرفاروق رضی اللہ عنہ دیگر تین ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچے۔ انصار کے خطیب (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ ہم اللہ کے دین کے معاون اور اسلام کی فوج ہیں اور اے مہاجرین! تم تھوڑی سی جماعت ہو جواپنی قوم قریش سے نکل کر ہم میں آئی ہو اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تقریر میں انصارکی خدمات کا اعتراف کیااور سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنایا: ’’اے سعد! تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا… اس وقت تم موجود تھے… کہ قریش امر خلافت کے والی ہیں ، اُن کے نیک نیکوں کا اور فاجر فاجروں کا اتباع کرتے ہیں ۔‘‘ تو سعد نے جواب دیاکہ آپ نے سچ کہا کہ ہم وزیرہوں گے اور تم امیر۔‘‘ امامت قریش میں ہوگی! خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن کر اَنصارنے اپنی گردنیں جھکا دیں اور اپنے سردار سے آنکھیں پھیر کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی۔ انصار کومذکورہ حدیث کی صحت پر اتنا اعتماد و یقین تھا کہ وہ تاریخ کے کسی موقع پر خلافت کے حصول کے لیے اُمیدواربن کر سامنے نہیں آئے۔ لیکن لندن میں پی ایچ ڈی کرنے والے مصری سکالر ڈاکٹر حسن ابراہیم نے انگریز محقق سرٹامس آرنلڈ کے کہنے پر اس کی صحت سے انکار کردیا چونکہ جمہوری نظام میں ہر شہری صدارتی اُمیدوار بننے کا قانونی حق رکھتا ہے، لیکن اس حدیث نے خلافت کو قریش تک محدود کرکے اس جمہوری اُصول کی نفی کی ہے ، اس لیے مغربی فلسفہ و فکر سے متاثر افراد نے انکار کردیا۔