کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 3
نہیں سنی؟ رحمانی بخش نے جھنجھلا کر کہا کہ ہمارے علاقے میں دو دن سے بجلی بند ہے، موبائل فون بھی بند ہیں اور پی ٹی سی ایل کی سروس بھی۔ ہمیں کیا پتہ کہ حکومت نے کرفیو لگا دیا ہے۔ اب مجھے اپنے خاندان کی لاشیں اُٹھانے دو۔ اس دوران مزید فوجی آ گئے۔ تباہ شدہ گاڑی میں ۱۶/افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ رحمانی بخش کی بوڑھی والدہ، بیوی اور ایک چھوٹی بچی زخمی تھے لیکن اس کے باقی بچے، اس کے دو بھائیوں کی بیویاں اور ان کے بچے اور تین قریبی رشتہ دار لقمۂ اَجل بن چکے تھے۔ رحمانی بخش بار بار مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میرا کیا قصور تھا؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس کا دردناک سوال سن کر قریب کھڑا حلیم باچا سسکیاں بھر کر رونے لگا۔ حلیم باچا بھی پیر بابا کا رہنے والا ہے۔ اُس نے کہا کہ دو سال پہلے وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو لے کر اسلام آباد جایا کرتا تھا اور وہاں سپریم کورٹ کے سامنے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے نعرے لگاتا تھا، پولیس کے ڈنڈے کھاتا تھا اور آج جب رحمانی بخش ہم سے اپنا قصور پوچھتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری اس جیسے مظلوموں کی آواز کیوں نہیں سن رہے؟ میں نے حلیم باچا سے کہا کہ رحمانی بخش کا المیہ ابھی تک میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے اور اگر میڈیا کے ذریعے چیف جسٹس کو پتہ چل بھی جائے تو وہ کیا کر سکتے ہیں ؟ سوات، بونیر اور دیر میں حکومت کی عمل داری نہیں تھی، اس عمل داری کو بحال کرنے کے لئے آپریشن کیا گیا لیکن آپریشن کے دوران حکومت سے مجرمانہ غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا نوٹس ضرور لیا جانا چاہئے۔ حلیم باچا میری وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ میڈیا والوں نے زمینی حقائق جانے بغیر شور مچا دیا کہ بونیر پر طالبان کا قبضہ ہو گیا حالانکہ اِن طالبان کی تعداد ۲۰۰سے زیادہ نہ تھی، یہ طالبان جان بوجھ کر بونیر آئے تاکہ یہاں بھی آپریشن ہو کیونکہ بونیر والوں نے دو سال سے طالبان کو یہاں آنے سے روک رکھا تھا۔ طالبان نے ایک کامیاب حکمت ِعملی کے تحت ایک تیر سے دو شکار کئے۔ اُنہوں نے بونیر پر آفت مسلط کر کے ہم سے بدلہ بھی لے لیا اور آخرکار بے گھر ہونے والوں کے بچوں کی کچھ نہ کچھ تعداد کو اپنا ساتھی بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ حلیم باچا نے طنزیہ انداز میں کہا کہ دراصل فوجی آپریشن میں جلدبازی محض اس لئے کی گئی کہ آپ کے صدر آصف علی زرداری کو امریکہ کا دورہ کامیاب بنانا تھا ۔ متاثرین مالاکنڈ کی اکثریت میں حکومت کے خلاف بے چینی