کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 29
سرٹامس آرنلڈ کاخیال ہے کہ اس قسم کی بہت سی احادیث اس نظامِ استبدادی کی صحت کو ذہن نشین کرانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب کردی گئی ہیں اور فقہاے اسلام نے اسی نظریہ کی تائید میں لکھاکہ ائمہ قریش سے ہوں گے۔‘‘ (مسلمانوں کا نظم مملکت: ص۲۳ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی) مصر میں پروان چڑھنے والے نظریات برصغیر میں نمودار ہوئے، چند سکالر صاحبان نے یورپی تہذیب و تمدن پر تنقید کی، لیکن مغربی نظامِ سیاست کو اسلامی لبادہ پہنانے میں عرق ریزی کی جن سے عصری تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والا طبقہ بھی متاثر ہوا اور اُنہوں نے برملا اظہار کیا : ’’غلط بات ہے کہ سقوطِ خلافت ۱۹۲۴ء میں ہوا۔ سقوطِ خلافت تو اسی وقت ہوگیا جب دورِ خلافت کو منقطع کردیا گیا۔‘‘(’کتابِ خلافت‘ ص۱۶ از چوہدری رحمت علی) جن خلفا کے دور میں مسلمانوں نے ہندوستان، سپین، خراسان اور افریقہ میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ حیرت ہے کہ جدت پسند مسلم سکالر اُن کو اس لیے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے کہ اُن کو عوام نے منتخب نہیں کیا۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ جمہوری نظام کے طور طریقے کیا مسلمانوں کی اختراع ہے؟ ’جمہوریت‘مسلمانوں کا متعارف کردہ نظام نہیں ۔ عالم عرب کے معروف سکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے آزادیٔ رائے اور محاسبہ کے واقعات کی آڑ میں جمہوری نظام کے حق میں دلائل دیئے ہیں ۔ لیکن اس امر کا اعتراف انہوں نے بھی کیا ہے کہ جمہوریت مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے : ’’جمہوریت کو جمہوریت کا نام عطا کرنے والے اور اس کے اُصول و قواعد وضع کرنے والے اگرچہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں ، لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم غیرقوموں سے اچھی باتیں سیکھیں اور اُنہیں اختیار کریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے کہ حکمت و دانائی کی باتیں مؤمن کی گم شدہ دولت ہے جہاں سے اُنہیں یہ دولت مل جائے اُنہیں اختیار کرنا چاہئے چنانچہ حکمت و دانائی کی باتیں اور نفع بخش چیزیں اگر ہمیں غیر مسلموں سے ملتی ہیں تو ہمیں اُنہیں اختیار کرناچاہئے۔ یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اور اسی پر حضورؐ اور خلفاے راشدین کا عمل تھا۔‘‘ (فتاویٰ ڈاکٹر یوسف القرضاوی :جلد دوم/ ص۲۴۹)