کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 28
خلافت وجمہوریت عطا محمد جنجوعہ، سرگودھا خلفاے راشدین کا تعین شورائی تھا! خلافت میں خلیفہ کا تعین عوام کی بجائے اہل حل وعقدکرتے ہیں اور خلیفہ کے تعین کے لئے یہ اقدام ’بیعت خاصہ‘ کہلاتا ہے جو خلیفہ کی تعیناتی کے ساتھ اس کی اطاعت کی بیعت بھی ہوتی ہے جس کی توثیق و عہد بعد میں عامتہ المسلمین کی ’بیعت ِعامہ‘ کی صورت ہوتی ہے۔ لیکن خلیفہ کے درست تعین کا حقیقی دارومدار کسی بھی خارجی ودیگر منفعت کی بجائے دین الٰہی کے نفاذ کے لئے اَصلح ترین فرد کی صورت ہوتا ہے۔ یہ اصلح ترین فرد قریبی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے اور مسلمانوں میں سے کوئی موزوں ترین شخص بھی۔ مزید تفصیلات کے لئے علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’السیاسیہ الشرعیہ‘ اور مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’خلافت وجمہوریت‘ مطالعہ فرمائیں ۔ ح م فطری امر ہے کہ حاکم قوم کے نظریات محکوموں پراثر انداز ہوتے ہیں ۔ انقلابِ فرانس کے بعد یورپی ریاستوں میں جمہوری نظام رائج ہوا تو آزادی، مساوات اور اُخوت کے دلفریب نعروں کے اثرات محکوم مسلم ریاستوں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں سرایت کرگئے جنہوں نے مغربی نظامِ سیاست کو بنیادبنا کر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جس کا نتیجہ یہ برآمدہوا کہ اُنہوں نے خلافت ِراشدہ کے دور کو جمہوری قرار دیا اور ان کے بعد مسلم حکمرانوں کو ملوکیت کاطعنہ دے کر اسلامی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ تاریخ اسلام کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم حسن،قاہرہ (پی ایچ ڈی لندن)نے تجزیہ کیا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفاے راشدین کا دور آیا، اس عہد میں فرمانروا کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے کیا جاتاتھا، لیکن بنی اُمیہ اور بنی عباس کے عہد ِخلافت میں یہ جمہوری طریقہ خود سری اور موروثی حکومت کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ اس زمانہ میں شوریٰ کا وجود ختم ہوگیا اور انتخاب صرف نام کو رہ گیا۔فقہا نے اسی بادشاہی نظامِ حکومت کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے اس قسم کی احادیث سے استدلال کی کوشش کی ہے کہ ’’خلافت میرے بعد چالیس سال تک رہے گی، پھر جبرواستبداد کی حکومت ہوجائے گی۔‘‘