کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 26
اگر صورت حال یہ ہے تو کیا یہ سب کچھ امریکہ کے ایکشن کا رِی ایکشن نہیں ہے؟ اگر طالبان زیادتی کر رہے ہیں تو دیکھئے! وہ عالم لوگ نہیں ہیں بلکہ انتقام و ردّ عمل میں بپھرے ہوئے ہیں ۔ ان کے طریقہ کار سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن دوسوال یہاں ضرور ہیں کہ سب سے پہلے وہ لوگ تشدد پر کیوں اتر آئے۔ اتنی محرومی اور مایوسی کیوں پیدا ہوئی ہے؟ جب کوئی خود کش حملے کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ آدمی اپنی جان دیتا ہے! جب وہ اپنی جان دے سکتا ہے تو اس کے نزدیک کسی کی قیمت نہیں ہوتی۔ اپنی جان وہ کسی شدید احساس کی وجہ سے دیتا ہے، اس کے اندرمحرومی و مایوسی کی شدت ہوتی ہے ! ڈاکٹر صاحب: اپنے لوگوں کو ذبح اوراپنے لوگوں کو قتل کرنے سے امریکہ کو کیا فرق پڑا؟ مدنی صاحب:دیکھیں ، یہ طریقۂ کار غلط ہے ! ڈاکٹر صاحب: یہ بات سو فیصد غلط ہے، محض جذباتی بات نہیں ہے ۔ مدنی صاحب: یہ سارا کچھ غلط ہے، لیکن غلط کام کے بارے میں کم ازکم حکومت کو یہ بتاناچاہیے کہ غلطی کس قدر ہے؟ کیا اس غلطی کا معنی یہ ہے کہ اُن کے پرخچے اُڑا دیے جائیں یا سب کے سب لوگ ختم کر دیے جائیں ۔ ڈاکٹر صاحب: یہ بالکل آپ نے صحیح فرمایا کہ ری ایکشن ہے، لیکن جو غلط ہے، وہ غلط ہے اس کو اچھا بھی نہیں کہنا چاہیے۔ یہ بتائیے کہ (پوری دنیا آپ کو سن رہی ہے) ، آپ ایک تجویز اور نصیحت کے طور پر حکمرانوں کو کیا کہنا چاہیں گے کہ اُنہیں کس طرح سے اس معاملے کو ہینڈل کرنا چاہیے۔ مدنی صاحب: ہر ایک آدمی کو برابرکا مجرم سمجھ کرکے اس کے پرخچے اُڑا دینا درست نہیں ہے۔ اس وقت اپنے لوگوں سے ڈائیلاگ اور مکالمہ کی ضرورت ہے ۔یہ طالبان جن کو آپ شر پسند اور تشدد پسند سب کچھ کہہ رہے ہیں ،اگرچہ مجھے طالبان کے رویے سے بالکل اتفاق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ انہی علاقوں میں آباد تھے وہاں تو کوئی بد امنی نہیں تھی، امن موجود تھا۔ اَب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے جو آپریشن شروع کردیا ہے تو یہ بالکل بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائی جارہی ہے، بنگلہ دیش میں جب ایک دفعہ آپریشن ہوا تھا تو ہم لوگوں نے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا ،لیکن اس کے بعد جو کچھ حشر ہوا ہے، وہ حشر بھی لوگوں نے