کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 24
رہی ہے،ہمیں تو اسلام کا وہ امیج بتانا ہے جو اسلام کی اصل حقیقت ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں کہنی چاہیے کہ خود کش حملے درست ہیں ۔ ہم اپنا کیس خود خراب کرتے ہیں ، پھر ہم دوسروں کو کوستے ہیں ۔ ہمیں تو ایسے حملہ آور کو سمجھانا چاہئے کہ تو پاگل ہو گیا ہے ، تمہارا تو یہ احساس ہی ختم ہو گیا ہے کہ زندگی میری بھی گئی اور دوسروں کی بھی۔ مدنی صاحب: ڈاکٹر صاحب! میں خود خودکش حملے کی حمایت نہیں کرتابلکہ میں تو خود کش حملے کی وجہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب: ہاں ، یہ وجہ بالکل ہوسکتی ہے۔ مدنی صاحب: چند دن قبل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر فتح محمد ملک نے کہا تھا کہ یہ جوکچھ ہو رہا ہے، یہ امریکی ظلم کے خلاف لوگوں کا ردّ عمل ہے۔ اگر ہم اس ری ایکشن کا خاتمہ نہیں کرتے تو اس نوعیت کے انتہائی اقدامات کا خاتمہ بھی مشکل ہے۔ غرض میں معصوم جانوں کے ضیاع کے لیے طالبان کی ہم نوائی میں خود کش حملہ کی حمایت قطعاً نہیں کررہابلکہ میں اس کی اصل وجہ پیش کر رہا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب!جہاں تک یہ المیہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے، ان کے بارے میں آپ جو بھی تجزیہ کریں اور جو بھی توجہ قوم کو دلائیں تو یہ بڑا قابل قدر کام ہے اور الحمد للہ آپ ایک اہم ملی فریضہ انجام دے رہے ہیں کہ ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہوں ، لیکن جو چیزیں اس وقت میڈیا میں نہیں آرہیں ،ان سے بھی ہمیں قوم کو باخبر کرنا چاہئے۔ میں صوفی محمد کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتابلکہ تمام مکاتب ِ فکر کی ایک مرکزی ’ملی شرعی کونسل‘ کے گذشتہ دنوں لاہور میں تین اجتماعات ہوئے، پہلے بریلوی مکتب ِفکر کے ہاں جامعہ نعیمیہ میں ہوا،پھر دیوبندی مکتب ِفکر کے ہاں جامعہ اشرفیہ میں ، پھر اہل حدیث کے مرکز ِقادسیہ میں علما کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا۔ان اجتماعات میں تمام دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس بات کی حمایت کی کہ صوفی محمد سے مل کر، میڈیا میں ان کے خلاف جو یک طرفہ پیغام جا رہا ہے اس کی وضاحت حاصل کرنا چاہئے۔ضروری ہے کہ میڈیا میں تصویر کا دوسرا رخ بھی آئے۔یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ تمام لوگ صوفی محمدکی حکمت ِعملی سے اختلاف کرتے ہیں ، ان کے انتہا پسندانہ بیانات سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا۔کیونکہ یہ موقع فتویٰ