کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 23
مدنی صاحب:قرآن کریم کی سورۃ البروج میں ایک شخص کا ذکر آیا ہے جس نے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خاطراپنے آپ کو مارنے کا یہ طریقہ بتایا تھا کہ میرا یہ تیر لو اوراس پر اللہ کا کلمہ پڑھ کرمیرے یہاں مارو تو میں مر جاؤں گا،کیا یہ خود کش اِقدام نہیں ہے؟ ڈاکٹر صاحب: وہ توبالکل مختلف بات ہے، اس کا اس سے کیا تعلق ؟ آپ نے یہ کہا کہ صحابہ کا یہ طریقہ رہا ہے،حالانکہ صحابہ کرام تو شہادت کے لئے بے تاب وبے قرار رہتے تھے،غازی نہیں بننا چاہتے تھے۔ پھر بھی خود کش حملہ انہوں نے نہیں کیا۔ خود کش حملہ آورتو یہ سوچ کر جاتا ہے کہ میں نے شہید ہی ہو نا ہے ۔ مدنی صاحب:ساٹھ ہزار افراد پر جب ساٹھ آدمی حملہ آور ہوں تو کیا یہ خود کش حملہ نہیں ہے۔ کیا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ساٹھ ہزار پرساٹھ آدمیوں کو لے کر حملہ نہیں کیا۔ کیا یہ خود کش حملہ نہیں ہے جبکہ ساٹھ کا ساٹھ ہزار سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب: اس طرح تو ایک ہزار افراد پر تین سوتیرہ نے حملہ کیاتوکیا یہ خود کش حملہ ہوگا، نہیں ، جی! یہ بالکل خود کش حملہ نہیں ہے۔ مدنی صاحب: اس وقت ہم خودکش حملے کی حمایت نہیں کررہے۔ ڈاکٹر صاحب:طالبان میں ایسے ہی لوگ گھسے ہوئے ہیں جو خود کش حملے کرتے ہیں ۔ مدنی صاحب: واضح رہے کہ خود کش حملے کے بارے میں ہم یہ توکہتے ہیں کہ اس شخص نے معصوموں کوہلاک کر دیا ہے، لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ اس شخص کے اندر کیا احساس محرومی ہے جو اپنے آپ کو پہلے ختم کررہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب: وہ تو پاگل ہے ؟ مدنی صاحب: پاگل پن کی وجوہات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اصل وجہ کوئی ضرور ہوگی،کیونکہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی جان سے نہیں کھیل سکتا، یقیناً شدید محرومی (Frastration) یا ظلم کا احساس ہی اس کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب:سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ذہنی پسماندگی ہے کہ آپ اپنا حق اور بات کہنے کے لئے کسی غلط رستہ کو اختیار کریں ۔ مدنی صاحب! پوری دنیا اس وقت یہ پروگرام دیکھ