کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 21
پورا کیا گیا کہ اب ہمارے لئے یہ آپریشن ناگزیر ہو گیا ہے !! ڈاکٹر صاحب: لیکن جو بیانات صوفی محمد نے دیے ہیں وہ بھی صحیح نہیں تھے، اس کی وجہ سے ایک ماحول بن گیا۔ البتہ میں اس کی تائید کرتا ہوں کہ نظامِ عدل کو نافذ ہونا چاہیے ۔یہ بالکل صحیح ہے کہ ہمیں اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ پھر جس طرح صوفی محمد صاحب ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو عوام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہیں ، توبہت سی باتیں مخالف اسلام دیگر لوگ بھی پاکستان میں کرتے ہیں ، جب ہم اُنہیں برداشت کرتے ہیں تو اِسی طرح اِنہیں بھی برداشت کرنا چاہیے۔ نظامِ عدل کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ مدنی صاحب: افسوس کہ ہم صوفی محمد کے سلسلے میں انصاف نہیں کرسکے۔ جہاں تک نظام عدل کی بات ہے تو دنیا بھر مثلاً مشرقی یورپ وامریکہ وغیرہ میں ایسی عدالتیں موجود ہیں کہ جہاں فریقین آپس میں فیصلہ کرانے کے لیے خود قانون کا تعین کرکے فیصلے کرواتے ہیں ۔ ایسا اگر پاکستان میں بھی ہوجائے تو اس میں کیا حرج ہے؟بلکہ یہ تو پاکستان کے بنیادی مقصد کی طرف ہی پیش قدمی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب:مدنی صاحب! یہ سب کچھ تو ہو گیا، اب صورتحال تویہ ہے کہ اس وقت جو تیرہ لاکھ لوگ کیمپوں میں اس وقت محصور ہیں ، ان کے لئے علماء کو کیا کرنا چاہیے۔ مدنی صاحب: اس المیہ کا قوم کو پوری اجتماعی قوت سے سامنا کرنا چاہئے۔ جس طرح ۱۹۴۷ء میں لاکھوں لٹے پٹے لوگ پاک سرزمین پر آئے تھے اور ہم نے ان کو سنبھالا تھا، اسی طرح تین برس قبل زلزلہ کے وقت جو کچھ ہمارے لوگوں نے قربانیاں دی تھیں ،ہمیں اسی داستانِ وفا کو دہرانا ہوگا۔بلکہ بہت سے لوگ توکیمپوں میں کم جارہے ہیں ان کے جان پہچان کے لوگوں نے اُنہیں اپنے گھروں کے اندر جگہ دی ہوئی ہے۔ بعض لوگ بے حس بھی ہیں ، لیکن یہاں بہت سے احساس کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں ، ان کو مزید توجہ دلائی جاسکتی ہے بلکہ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میں خود اس صورتحال کو قابو کرنے کے لئے اپنی سی بھرپور کوشش کروں ۔ یہ باتیں توسب لوگ کررہے ہیں ، کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آنی چاہیے جو کوئی بھی نہیں کرتا، مثال کے طور پر میں یہ سوال اُٹھانا چاہتا ہوں کہ صوفی محمد نے جمہوریت کو کفر کہہ دیا، یا یہ