کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 20
حافظ صاحب:میں یہ سمجھتا ہوں کہ صوفی محمد سے یہ موقف اُگلوایا گیا، اور ان کے یہ پرانے خیالات جو عوام کے لئے ان کی ذات کے حوالے سے نئے تھے، پھیلاکر ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب: لیکن یہ تو صوفی محمد کا اپنا جلسہ تھا، اس میں کون سوال پوچھنے والا تھا؟ مدنی صاحب:آپ درست فرما رہے ہیں کہ صوفی محمد صاحب نے جلسہ کے بعد اپنے انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے ،اس کی کوئی بھی حکیمانہ نظر رکھنے والا شخص تائید نہیں کرے گا، کیونکہ وہ فراست ودانائی کے منافی باتیں ہیں اورپھر بھی یہ ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں عوام کوئی گہرا شعور نہیں رکھتے، مثال کے طور پر اسمبلیوں یا آئین کو نہ ماننے کی بات کہہ دینا ،یا یوں کہہ دیناکہ ہماری نماز فلاں فلاں کے پیچھے نہیں ہوتی، ایسے نقطہ نظر کی کوئی بھی شخص تائید نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ یہ انتہاپسندانہ نظریات ہیں جنہیں عام لوگ گوارا نہیں کرتے۔ ڈاکٹر صاحب: کیا صوفی محمد کے پیش کردہ نظامِ عدل کو نافذ کر نا چاہیے؟ مدنی صاحب:ڈاکٹر صاحب! یہاں ایک بات قابل توجہ ہے: صوفی محمدکے اخبارات میں شائع شدہ موقف کو اگر غلط بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا موقف رکھنے والوں کی ہمارے قانون یا اسلام نے کیا سزا مقرر کی ہے؟ کیا ایسے بیانات کی سزا یہ ہے کہ اس بنا پر اُنہیں قتل کردیا جائے۔چنانچہ فوجی کاروائی کی اصل وجہ یہ بیانات دینا نہیں بلکہ اس کے پس پردہ محرکات کچھ اور ہیں ۔ ہمارے ہاں بعض اوقات قرآنِ مجیدکے خستہ اوراق کو تلف کرنے کے لئے کچھ لوگ انہیں دفن کرنے سے قبل جلا دیتے ہیں ،جس پربعض لوگ ایسے شخص کے خلاف مشتعل ہوکر اس پر بدترین ظلم شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی توہین ہوئی ہے جیساکہ گوجرانوالہ کے اندر کچھ عرصہ قبل ایک حافظ ِقرآن کو اسی وجہ سے مارو! مارو!، پکڑو!کی دہائی دے کر ختم کر دیا گیا، اسی طرح لال مسجد کے واقعہ میں غازی برادران کے بعض اقدامات کی سزا اُنہیں یہ دی گئی کہ نہ صرف غازی عبدالرشید بلکہ لال مسجد کی عام طالبات کو ہلاکت وبربادی سے دوچار کرکے نشانۂ عبرت بنا دیا گیا، یہ تو غلطی کو بڑا بنا کر ظلم کے جواز کے لئے استعمال کرنے والی بات ہوئی۔ دراصل سوات میں بھی جو کاروائی کی گئی ہے، اس میں ان بیانات سے یہی مقصد