کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 330 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر پاکستان میں ’امریکہ کی جنگ ‘ کہاں تک؟ روزنامہ جنگ کے کالم نگار حامدمیر اپنے کالم ’قلم کمان‘ میں لکھتے ہیں : ’’رحمانی بخش سے ملے بغیر آپ کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ سوات، بونیر اور دیر کے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت فوجی آپریشن کی مخالف کیوں ہے؟ یہ لوگ طالبان کے حامی نہیں ہیں لیکن حکومت نے جس انداز میں آپریشن شروع کیا ہے، اس انداز نے ان لوگوں کی نظروں میں طالبان اور حکومت کا فرق مٹا دیا ہے۔ رحمانی بخش نے اپنی گود میں دو سال کی بیٹی کو اُٹھا رکھا تھا جس کے معصوم چہرے پر زخموں کے نشانات واضح تھے۔ اُس نے بتایا کہ چند دن پہلے بونیر کے علاقے پیر بابا کے آس پاس موجود طالبان پر بمباری شروع ہوئی تو اُس نے پورے خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر جیسے ہی اپنے گھر سے نکلا تو گدیزئی کے قریب سڑک پر ٹینک کھڑا نظر آیا۔ رحمانی بخش نے فوراً گاڑی روکی اور ہاتھ اوپر اُٹھا کر ٹینک کی طرف بڑھا تاکہ فوجیوں کو بتا سکے کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ ابھی وہ چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ ٹینک سے فائر ہوا اور چند ہی لمحوں میں رحمانی بخش کا پورا خاندان تباہ ہو گیا۔ اس نے شور مچایا کہ گاڑی میں عورتیں اور بچے ہیں لیکن دوسرا فائر بھی ہو چکا تھا۔ رحمانی بخش زخمی ہو کر زمین پر گر چکا تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک بندوق بردار فوجی اس کے قریب آیا اور زخمی رحمانی بخش سے کہا: کیا تم نہیں جانتے تھے کہ علاقے میں کرفیو نافذ ہو چکا ہے اور کرفیو میں گھر سے باہر آنے والے کو گولی مار دی جاتی ہے؟ رحمانی بخش نے کہا کہ اسے یا اس کے خاندان کو کرفیو کا کوئی علم نہیں تھا۔ وہ تو اپنے گھر کے آس پاس شروع ہونے والی بمباری کے باعث سب سامان چھوڑ کر گھر سے بھاگ نکلے تھے۔ فوجی نے کہا کہ کیا لاؤڈ اسپیکر سے کرفیو کا اعلان نہیں ہوا؟ رحمانی بخش نے نفی میں جواب دیا۔ فوجی نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا تم نے ٹیلی ویژن پر کرفیو کی خبر