کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 19
نے اُنہیں نقصان پہنچایا ہے؟ ڈاکٹرصاحب: ہم اس میں نہیں پڑتے کہ کس نے یہ کام کیاہے، لیکن مزارات کو نقصان تو پہنچا ہے؟ قبروں سے لاشیں نکال کر لٹکائی گئیں ،یہ سب کچھ ہوا، لیکن فی الحال اس کو چھوڑ دیں ، کیونکہ یہ ایک مستقل بحث ہے، آپ یہ فرمائیے کہ سوات کی موجودہ صورتِ حال میں نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے لئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ علماء کو کیا کرنا چاہیے، ماشاء اللہ آپ جیسے قابل افراد موجودہیں ، جو دین کا شعور رکھتے ہیں … ہم اس وقت کیا کریں ؟ حافظ صاحب: اَفراد کی نقل مکانی کا مسئلہ واقعتابہت بڑا المیہ ہے، اس المیہ کے افسوسناک ہونے کے بارے میں تو تمام لوگ کہہ رہے ہیں ، لیکن ’عالم آن لائن‘ کا تقاضا کچھ اور بھی ہے کہ اس کی وہ وجوہ جانی جائیں جو خاص طور پر اس المیہ کا سبب بنی ہیں ۔ یوں بھی ’تحریک ِنفاذ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ شریعت کے نفاذ کی تحریک ہے، اس کے موقف اورکوتاہیوں کو یہاں زیر بحث آنا چاہئے۔ شریعت کے طالب ِعلم کی حیثیت سے ہمیں اس کا شرعی جائزہ لینا چاہئے، اس لیے کہ پاکستان میں اسلا م کے مخالفت کی دس سالہ جنگ کے بعد نفاذِ شریعت کی یہ آواز گویا ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے جس میں شرعی نظام عدل کو قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ پاکستانی عوام نے قیام عدل کی ایک تحریک تو وکلا کے ساتھ چلائی جو ۱۵/مارچ کو کامیاب ہوئی اور اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی ہوئی اور ہمارے مروّجہ نظامِ عدل کو جمہوری طور پر آزادی ملی۔اور اس کے ساتھ دوسری ’تحریک ِنفاذ شریعت محمدی‘ بھی قیام عدل کا ایک اہم سنگ ِمیل ہے جس کے پس پردہ وہ معاہدۂ امن ہے جس پر قومی اسمبلی کی قرار داد پاس ہو نے کے بعدبالآخر صدر صاحب نے دستخط بھی کردیے ۔یہ بھی ایک خوش کن خبر تھی،اور اس سے یہ اُمید بندھی تھی کہ بالآخرپورا پاکستان اپنے مقصد ِقیام کی طرف لوٹ جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب: لیکن یہاں صوفی محمد کو اپنی زبان کو بھی تھوڑا سا کنٹرول رکھنے کی ضرورت تھی۔ صوفی محمد صاحب کو جلسہ کر کے ایسی تقریر کرنے اور بعد میں انٹر ویو دینے کی کیا ضرورت تھی جس کی وجہ سے پوری قوم میں شبہات پیدا ہوئے۔ علماء بھی کہتے ہیں کہ اس میں بعض بیانات قابل غور ہیں ۔