کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 18
بات کا انکار کرنا ضروری ہوتا ہے، اگر اس کی ابتدائی بات مان لی جائے تو اس کے بعد تسبیح کے دانوں کی طرح تمام کی تمام باتیں ماننی پڑتی ہیں ، چنانچہ حالات نے بتایا کہ پرویز مشرف نے درجہ بدرجہ امریکہ کی وہ تمام باتیں مان لیں جس کے منظور ہونے کی امریکہ کو بھی اُمید نہ تھی۔ اس وقت تو پاکستان میں جمہوری حکومت موجود ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت پرویز مشرف سے بھی بڑھ کر امریکہ کو وفاداری کا یقین دلار ہی ہے۔ اِدھر سوات آپریشن کی تیاری شروع ہوئی۔ اُدھر ہمارے صدر داد لینے اور یہ بتانے کے لئے امریکہ پہنچ گئے کہ ہم نے وہ کام شروع کردیا ہے جو امریکہ کا ایجنڈا اوردیرینہ مطالبہ تھا۔ البتہ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ اس وقت تک صوفی محمدکے بعض بیانات یا طالبان کے کردارکے بارے میں جو باتیں میڈیا میں آئی ہیں ، اس کی رو سے یہ لوگ انتہا پسند ہیں ۔ ڈاکٹرصاحب: ان لوگوں کو کیونکر معصوم قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ آ پ دیکھیں کہ خود کش حملے ہوئے، مساجد کو لہوسے رنگین کیا گیا،یہ زیادتیاں ان کی طرف سے ہوئی ہیں !! حافظ صاحب: جب اس طرح کا کوئی واقعہ ہو تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ ایسے واقعات کا ارتکاب درحقیقت کن لوگوں نے کیاہے؟ مثال کے طور پر کچھ واقعات مزارات کے بارے میں ہوئے ہیں ، جس پر ہمارے ہاں بریلوی مکتب ِفکر بہت سیخ پا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مزاروں کی توہین کی گئی ہے، لیکن دوسری طرف میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ تحریک ِنفاذِ شریعت کے سربراہ صوفی محمد نے حکومت سے جس ’نظامِ عدل ریگولیشن‘ کی تعمیل کا مطالبہ کررکھا ہے، اس کے پہلے شیڈول میں یہ شق موجود ہے کہ پاکستان میں ۱۹۷۵ء کے ’تحفظ ِنوادارات ‘قانون کی پابندی کی جائے گی۔ واضح ہے کہ جب وہ نوادارت کے تحفظ کا معاہدہ کررہے ہیں تو ان کے اندر یہ مزاربھی شامل ہیں ، جن کے تحفظ کا وہ معاہدہ کررہے ہیں ۔ تو جب ’تحریک ِنفاذ شریعت‘ نے ’تحفظ ِنوادرات‘ کا معاہدہ ومطالبہ کررکھا ہے تو وہ لوگ خود ایسی حرکت کیسے کرسکتے ہیں ؟ ڈاکٹرصاحب: مگر اس کے باوجود اُنہوں نے مزارات کو نقصان پہنچایا۔ حافظ صاحب: میں اسے تحریک ِنفاذ شریعت کے خلاف پروپیگنڈہ سمجھتا ہوں ، کیا صوفی محمد