کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 16
اگر طالبان کا کوئی ساتھی انتقام سے مغلوب ہوکر خودکش حملے میں پناہ تلاش کرتا ہے تو اس کو بتانا چاہئے کہ پرامن مسلمانوں کی جانوں سے کھیلنا شریعت ِاسلامیہ میں قطعاً جائز نہیں ہے۔ اصل دشمن سے توجہ ہٹا کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ہدف بنانے کی سازش مکار امریکہ کی ہے، اگر کوئی مسلمان اپنی جان کی قربانی تک کے لئے تیار ہے تو یہ قربانی کفار کے خلاف کام آنی چاہئے، نہ کہ مسلمان بھائیوں کے خلاف! ٭ پاکستانی طالبان میں افغانی طالبان کے برعکس نہ تو کوئی مرکز ہے اور نہ متفقہ حکمت ِعملی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے افغانی طالبان میں قیادت اور مرکزیت کو مستحکم کردیا، اور ان کا دشمن اور ہدف بھی ایک اور واضح ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے بھگایا جائے، جبکہ پاکستانی طالبان محض ظلم کے خلاف کسی مرکزی قیادت اور منظم منصوبہ بندی کے بغیر اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔پاکستانی طالبان متعدد گروہ ہیں اور ہر ایک کی علیحدہ شوریٰ کے اپنے اہداف اور حکمت ِعملی ہے۔ ان منتشر حالات میں افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر نے صوبہ خوست سے پاکستانی طالبان کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ پاکستان میں لڑنے کی بجائے افغانستان میں امریکہ کے خلاف جمع ہوجائیں ۔ اُنہوں نے پاکستانی طالبان کو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف لڑنے سے منع کیا ہے۔ ان ہدایات کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں سے طالبان نے افغانستان کی طرف نکلنا بھی شروع کردیا ہے پاکستانی طالبان کے یہاں سے انخلا کی ایک رپورٹ بھی شائع ہوچکی ہے۔ (’ ندائے ملت‘: ۵ جون۲۰۰۹ء) یہ بالکل درست حکمت ِعملی ہے، اپنے ہدف کو واضح اور دوٹوک رکھنا کامیابی کے لئے اشد ضروری ہے۔لہٰذا اسلام کے نام پربڑھنے والاہر قدم شریعت اسلامیہ کی رہنمائی کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ اگر اہل پاکستان پر ظلم ہوا ہے تو اس وقت اصل ظالم کو بھگا کر اس ظلم کا حقیقی خاتمہ کیا جاسکتا ہے، یہی پاکستانی مجاہدین اور حکومت ِپاکستان کا نکتہ اشتراک ہونا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری عزت، کامیابی اور بقا مضمر ہے! ( ڈاکٹر حافظ حسن مدنی )