کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 15
کرنا چاہئے۔ جب امریکہ نے عراق وافغانستان پر آتش وآہن برسایاتو ہم لوگ مطمئن رہے کہ ہم پر تو کوئی پریشانی نہیں آئی، ہمارے سرحدی علاقے متاثر ہوئے تو ہم نے سوچا کہ یہ تو قبائلیوں کا مسئلہ ہے اور اپنی روزمرہ دلچسپیوں میں مشغول رہے۔ اگر ہمارا یہی وطیرہ رہا تو کل کلاں ہم پر ہونے والی کسی جارحیت پر باقی مسلمان اسی طرح خوابِ خرگوش کے مزے لیں گے۔ آج حالت یہ ہے کہ بدامنی اور قتل وغارت ہمارے شہروں میں داخل ہوچکی ہے اور ایک خبر کے مطابق لاہور شہر میں ۳۵ بارود سے بھری گاڑیاں داخل ہوچکی ہیں ۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ باشعور مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی دباؤ پر اپنے ہم وطنوں پر جارحیت کی مخالفت کریں اور امریکہ کو اپنے وطن سے نکال باہر کرنے کے لئے وکلا تحریک کی طرح تمام تر عوامی دباؤ منظم کریں ۔ بصورتِ دیگرجب دشمن سر پر آن پہنچا تب اس کا جواب دینا ممکن نہ ہوگا۔ اس وقت ’گوامریکہ گو‘ کی عوامی تحریک چلانا دینی و قومی جماعتوں کا اوّلین فرض ہے۔ ٭ پاکستانی حکومت تمام تر صورتحال سے بخوبی واقف ہے، اسے اپنی فوج کو حقائق کے مطابق استعما ل کرنا چاہئے، یہ اللہ کے دین کے محافظوں کی فوج ہے جس کا ہدف کسی مسلمان کی بجائے کافر ہی ہونا چاہئے۔ فوجی حکام کو بھی اس امر کا شعور ہونا چاہئے، اور اندھے بہرے ہوکر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف خود ساختہ ’جہاد‘ کے احکامات دے دیے جائیں ،کیونکہ اس نادانی کے نتیجے میں لوگ ایک اور لال مسجد کا المیہ رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ ٭ حکومت سے متحارب پاکستانی طالبان کو مسلمان بھائیوں کے خلاف اپنی متشددانہ روش سے باز آجانا چاہئے، ایسے حالات میں جنگ کا کوئی فائدہ نہیں جب کہ اس کا تمام تر فائدہ امریکہ اُٹھا رہا ہو۔ فرض کریں اگر ان پر ظلم ہوا ہے تو اُنہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر ڈرون حملے امریکہ نے کئے ہیں ،اور اگر پاکستانی فوج ان کے مد مقابل ہے تو وہ بھی کسی اور کے احکام کی تعمیل پر مجبور ہے۔ اس لئے ان کا ہدف کسی مسلمان کو نہیں ہونا چاہئے۔