کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 14
امن ایک قابل اتباع مثال ہے، معاہدۂ امن کے طے شدہ تقاضوں کو بھرپور طریقے سے پورا کیا جائے اور دونوں طرف سے کوتاہیوں کو رفع کیا جائے تو جنگ کے شر سے ایک عظیم خیر رونما ہوسکتی ہے۔البتہ صوفی محمد کی نظامِ عدل کی ترجیحات میں ملک کی مسلمہ دینی قیادت کی مخلصانہ سفارشات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ پاکستان میں امن وامان آخرکار مصالحت ومفاہمت کے نتیجے میں ہی آئے گا، اور ایک روز حکومت کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ٭ ہمارے سیاستدانوں کو اس نازک وقت میں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی سلامتی پر اوّلین توجہ دینا چاہئے، مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کہ طالبان اسلام آباد تک پہنچ سکتے ہیں ، نے امریکہ کے کونسے کونسے مقاصد پورے کئے اور نواز شریف کے آپریشن کی حمایت میں بیانات ملک میں کیسا بحران پیدا کررہے ہیں ، اس کا اندازہ ہر صاحب ِبصیرت کرسکتا ہے۔ امریکہ کبھی اپنی خوشامد وچاپلوسی کے نتیجے میں نواز شریف کو فیصلہ کن عہدے پر فائز نہیں کرے گا، البتہ وہ نواز شریف اور جنرل کیانی کواہمیت دے کر حکومت ِوقت کو مزید دباؤ کا شکار کررہا ہے، تاکہ حکومت متبادل حکام کی موجودگی میں امریکہ کی زیادہ سے زیادہ اطاعت وفرمانبرداری کا مظاہرہ کرے۔ ٭ پاکستان کی دینی جماعتوں کواس نازک موقع پر باہمی اختلاف کا مظاہرہ کرکے مفادات کی سیاست سے ہرممکن گریز کرنا چاہئے۔ لوگوں کو بخوبی علم ہوتا جارہا ہے کہ کون امریکہ اور حکومت کے ایجنڈے پر چل رہا ہے اور کون اپنی جنگ لڑرہا ہے۔ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں کی نادانی پر مبنی حکمت ِعملی کا یہ نتیجہ ہوگا کہ وہ امت میں انتشار کا سبب بنیں گی اور اہل دین سے الگ تھلگ ہوجائیں گی، نظریاتی جنگ کے اس مرحلے پر دینی جماعتوں کو ایک متفقہ موقف اپنا کر عوام کی درست رہنمائی کرنا چاہئے اور فرقہ وارانہ رجحانات سے عوام کو مزید منتشر ہونے سے بچانا چاہیے۔ ٭ عوام کو یہ سوچ کر کہ جنگ صرف سرحدی علاقوں کی ہے، اپنی ذمہ داری سے صرفِ نظر نہیں