کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 13
ساختہ دشمن پروان چڑھا کر اپنی جارحیت کو جواز مہیا کیا جارہا ہے۔یاد رہے کہ ان رہنماؤں کو امریکی ایجنٹ قرار دینے کی بجائے ہم ان کے بیانات کے استحصال کی نشاندہی کررہے ہیں جن بیانات کی خبریں اکثر وبیشتر ہمیں عالمی خبررساں ایجنسیوں کے ذریعے موصول ہوتی ہیں ۔ پس چہ بایدکرد؟ پاکستان نہ صرف بیرونی سطح پر براہِ راست جنگ کا شکارہے بلکہ خود پاکستانی قوم بھی اندرونی طورپر باہم برسرپیکار ہے، مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے، اس سے افسوسناک صورتحال اور کیا ہوگی کہ پاک فوج اپنے ہی شہریوں اور اپنی ہی سرزمین پر جنگ کر رہی ہے۔ وہ قبائلی جنہیں پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا تھا، آج ایسے حالات میں اس بازوئے شمشیر زن سے لڑائی جاری ہے کہ ہردو سرحدوں پر دشمن فوجیں تیارکھڑی ہیں اور ہم اپنی ہی دفاعی قوت کو پامال کر رہے ہیں ۔ ان علاقوں کے رہائشی خواہ وہ فوجی یا عوام کل کلاں کس جذبے کے تحت پاک وطن کے دفاع کے فرض کی تکمیل کریں گے۔ یہ حقائق بڑے تلخ ہیں اور جب تک پاک افغان سرحد پر آمد و رفت کو کنٹرول نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کی جنگ ایک دوسرے سے مربوط ومنسلک رہے گی۔ ان سنگین حالات میں قوم کے ہرطبقہ کو انتہائی ذمہ داری اور دانائی کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ ہم شیاطین ثلاثہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے مکروہ عزائم کو خاک میں نہیں ملا پائیں گے: ٭ اپنے عوام کو تحفظ دینا ہوگا اور ان پر جارحیت ختم کرنا ہوگی کیونکہ یہ مزید المیوں کو جنم دیتی اور سرحد پر بیٹھے دشمن کو مکاری کے ذریعے اپنے مقاصد پورا کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ٭ امریکی فوج اور اس کی ایجنسیوں کو ملک سے نکال باہر کرنا ہوگا، ان کی سپلائی لائن کو بند کرنا ہوگا، وگرنہ یہ غیرملکی ایجنسیاں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوکر ملک کو مزیدبدترین صورتحال سے دوچار کریں گی، اور اس کے نتیجے میں پاکستانی حکومت کو ناکام قراردے کر ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی کوششیں کریں گی۔ ٭ حکومت کو اپنی قوم سے مصالحت کی راہ تلاش کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں صوفی محمد کا معاہدہ