کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 12
وفراست کی بنا پر کوئی کاروائی کرنے کی بجائے سراسر نادانی سے اپنے ہی ملک اور اس کے باسیوں کو مزید آگ میں جھونکنے جیسے اقدامات کررہی ہے جس سے یہ جنگ کم ہونے کی بجائے سالہا سال تک پوری ریاست میں جاری رہنے کے امکانات روز بروز بڑھ رہے ہیں ۔ امریکہ ایک ماہ قبل جس شد ومد سے پاکستانی حکومت کو اپنے ہی ناراض ہم وطنوں سے لڑانے کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا، آج ہم اپنے دشمن کی حکمت ِعملی پر پوری طرح کاربند ہوچکے ہیں ۔ان حالات میں امریکہ کو جنگ کے ہردوفریق کو محض اِمداد او رروپے کے نام پر انتہائی سستے داموں اپنی جنگ جاری رکھنے اور ہماری قوت ختم کرنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ عراق میں امریکہ کا ماہانہ جنگی خرچ ۷۰ بلین ڈالر ہے جب کہ پاکستان میں محض ڈیڑھ بلین ڈالر سالانہ امداد کے دباؤ پر امریکہ پاکستانی حکومت کو جنگ لڑنے پر مجبور کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کررہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ دوماہ قبل پاکستان کے لئے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کے موقعہ پر قومی قیادت نے اسے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا تھا، آج پاکستان واقعتا اس امداد اور عالمی قرضوں کے حصول کے نام پر اپنی سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس امداد پر خوشیاں منائی جاتیں اور قوم کو خوشخبریاں دی جاتی ہیں ،لیکن امداد کے متعینہ مصارف اورطے کردہ شرائط سے عوام کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔ حکومت ان حالات میں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف جارحیت اور عسکریت کی راہ اپنا کر شدید نادانی کامظاہرہ کررہی ہے۔ طالبان کی جس قیادت بیت اللہ محسود اور مولوی فضل اللہ کے سروں کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر مقرر کی جارہی ہیں ، انہی کے ناموں پر امریکی مفادات کی سیاست ہو رہی ہے اور اس قیادت کو محفوظ ومامون رکھ کر امریکی عزائم پورے کئے جائیں گے، جیسا کہ کئی بار پاکستانی حکومت نے امریکہ کو بیت اللہ محسود کی کسی مقام پر موجودگی کی اطلاع دی لیکن اس کو بدترین دشمن باور کروانے کے باوجود امریکہ نے وہاں کوئی حملہ نہ کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح اُسامہ بن لادن کا نام دہشت گردی کااستعارہ بن کر لگاتار امریکی مفادات کی تکمیل کا سبب بنا رہا، اسی طرح مذکورہ رہنماؤں اور ان کی تنظیموں کے اعترافات سے خود