کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 11
ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، ۲۷ مئی کو لاہور میں ہونے والا حملہ بھی دراصل سوات ومالاکنڈ میں ہونے والی فوجی جارحیت کے خلاف جواز مہیا کرنے کے لئے ہے، تاکہ پاکستانی عوام میں طالبان کے بارے ہم دردی کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہونے پائے۔ فوجی جارحیت کے ان دنوں میں دیر و بونیر سے ایسے زخم خوردہ مسلمان تلاش کرنا چنداں مشکل نہیں جو اپنے انتقام کی آگ بھجانے کے لئے ہر طرح کے تعاون، منصوبہ بندی اور ہلاکت خیز مواد کے متلاشی ہوں ۔ لیکن کیا ایسے دھماکوں کو کسی ظاہری خودکش شخص پر ڈال کر اور اصل منصوبہ ساز دماغ کو نظر انداز کرکے، جس کا اعتراف وزیر داخلہ بھی کرچکے ہیں ، حکومت اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات کا استحصال کرنے والا اصل مجرم ہے جس کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ طالبان کے خلاف ردّ عمل کو مزید تیز کرنے کے لئے سوات ومالاکنڈ آپریشن کے بعد دیگر پرامن شہروں کو بھی ا س آپریشن کے ردّ عمل کے نام پر ہلاکت خیزی کا شکار کیا جائے گا اور اس طرح پاکستانی حکومت کے کمزور ہونے کاعالمی پروپیگنڈا اور طالبان کے مزید قوی ہونے کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا میں گردش کریں گی۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی ہمیشہ مخصوص مقاصد کے تحت فروغ پاتی رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی عوام میں دہشت گردی کے حقیقی رجحانات اور داخلی وجوہات موجود نہیں ہیں بلکہ اپنی معصومیت واخلاص کی بدولت دشمن اُنہیں اپنا آلہ کار بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سالہا سال تک شیعہ سنی فسادات کی آگ میں جلتے پاکستان میں اس نوعیت کی دہشت گردی کا کوئی واقعہ اب کئی برسوں سے رونما نہیں ہوا۔ ماضی میں مساجد اور سیکورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اب نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں جس نوعیت کی دہشت گردی کی واردات ہورہی ہیں ، اس میں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے، سینماؤں اور مغربی تہذیب کے مراکز کو نشانہ بنانے اور پرامن شہریوں کو بڑے پیمانے پر ہلاکت وبربادی سے دوچارکرنے کارجحان غالب ہے۔ افسوس اِس امر پر ہے کہ ہماری حکومت ملکی سلامتی کو درپیش اس گھمبیر صورتحال میں فہم