کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 10
ہی حکومت ہلاک کرچکی ہے۔ شورش سے بھرپور ان حالات میں امریکی ڈرون حملے خدانخواستہ وہاں بھی ظلم وستم کا بازار گرم کریں گے، اور ظلم کا نشانہ بننے والے عوام حکومت کے تحفظ سے محروم ہوکر ردعمل اور انتقام کی راہ پر چل نکلیں گے۔ یہی وہ حالات ہوں گے جن میں امریکی اَفواج کو براہ راست سامنے آئے بغیر محض اپنے سرمائے اور منصوبہ بندی سے ان عوام کو پاکستانی ریاست کے خلاف استعمال کرنا بآسانی ممکن ہوجائے گا۔ بظاہر مسلمان اورپاکستانی لڑیں گے، عوام اور سیکورٹی فورسز برسرپیکار ہوں گی، لیکن درحقیقت عالمی استعمار پس پشت رہ کر ہر دو فریق کی ڈور ہلائے گا اور اپنے مذموم مقاصد پورے کرے گا۔ پاکستان کچھ عرصے بالخصوص اوباما انتظامیہ کے بعد اسی قسم کی مخدوش صورتحال اورسفارتی دباؤ کا شکار ہے، جس کے لئے اب سفارتی استعمار کی اصطلاح اپنائی جانے لگی ہے۔ چند ماہ پہلے تک دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر اس کی بھرپور مدد کررہا تھا۔ آج سے چھ ماہ قبل دسمبر اور جنوری میں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں حالات کافی پرسکون تھے،یہ ایک خوش کن خبر تھی کہ ا س سال جنوری کا پورا مہینہ ایک دھماکہ بھی نہیں ،لیکن امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اُکسا رہا تھا اورپاکستان اس کے لئے آمادہ نہیں ہورہا تھا۔ امریکہ کی مکاری اور پاکستانی حکومت کی نادانی کا یہ کرشمہ ہے کہ آج امریکہ پاکستان کا معاون بنا ہوا ہے اور پاکستان کے لئے یہ دہشت گردی سب سے بڑا دردِ سر! حتی کہ ملکی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان کو قبائلیوں سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک طرف ان علاقوں پر لگاتار ڈرون حملے کئے گئے تاکہ وہاں کے رہائشیوں کے پاس جوابی تشدد اور جارحیت کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور دوسری طرف گذشتہ چار ماہ میں لگاتار پاکستان کے اہم مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تاکہ پوری قوم کو طالبان کے خود ساختہ خوف کے خلاف جمعکیا جاسکے اور اُنہیں ملکی سلامتی کے خلاف ایک سیکورٹی رسک کے طورپر متعارف کرایا جائے۔ ہماری نظر میں لاہور میں ہونے والے مناواں سنٹر اور ریسکیو بلڈنگ پر حملے اسی قبیل سے